Shohar Ka Mehr Maaf Karwana

شوہرکا مہرمعاف کروانا

مجیب: مولانا ذاکر حسین عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1979

تاریخ اجراء: 25صفرالمظفر1445ھ /12ستمبر2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   والدین کی طرف سے مہرکی رقم جومقررہوئی،نکاح کے بعدلڑکالڑکی باہمی رضا مندی سے وہ رقم کم کرسکتےہیں؟ والدین نے بہت زیادہ مہرمقررکیاہو،جس کی وجہ سے شوہر بیوی کےحقوق پورے نہ کرپارہاہو،اورمیاں بیوی دونوں چاہتےہوں کہ مہرکی رقم کوکم کردیاجائے،تاکہ جلدی مہرادا ہوجائے،توکیاشرعاً اس کی گنجائش ہے؟نیزاگرعورت چاہےتومہرکی رقم شوہرکومعاف کرسکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مہر عورت کا حق ہے اور جتنا مہر نکاح میں مقرر ہوا، شوہر پر اس کی ادائیگی لازم ہے اور مہر زیاد مقرر ہونے کی وجہ سے عورت کو پریشان کرنا تاکہ وہ مہر معاف کرے یا کم کرے ہر گز درست نہیں ۔ البتہ اگر عورت عاقلہ بالغہ ہے اور اپنی خوشی سے مہر معاف کرے تو وہ اس کا حق رکھتی ہے۔ لیکن  شوہر کا معاف کروانا کچھ مناسب نہیں اور اس پر جبر کرنا  اور مختلف حیلے بھانوں  سے اسے تکلیف پہنچانا تو ہر گز روا(جائز) نہیں ۔

   اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً ؕفَاِنۡ طِبْنَ لَکُمْ عَنۡ شَیۡءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوۡہُ ہَنِیۡٓــًٔا مَّرِیۡٓــًٔاترجمہ کنزالعرفان:’’ اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو پھر اگر وہ خوش دلی سے مہر میں سے تمہیں کچھ دے دیں تو اسے پاکیزہ، خوشگوار (سمجھ کر) کھاؤ۔‘‘(القرآن الکریم،پارہ4،سورۃ النساء،آیت:04)

   اس آیتِ مبارکہ کے تحت صدر الافاضل مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادی علیہ الرحمۃ فر ماتے ہیں:” عورتوں کو اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہروں کو مَہر کا کوئی جزو ہبہ کریں یا کل مہر مگر مہر بخشوانے کے لیے انہیں مجبور کرنا،ان کے ساتھ بدخلقی کرنا نہ چاہئے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے﴿طِبْنَ لَکُمْ فرمایا جس کے معنیٰ ہیں:دل کی خوشی سے معاف کرنا ۔“(تفسیر خزائن العرفان،سورۃ النساء،آیت04،ص153،مکتبۃ المدینہ)

   مہر معاف ہونے کے لیے عورت کی رضامندی ضروری ہے،جبری مہر معاف کرانا درست نہیں، جیساکہ فتاوی عالمگیری میں ہے:”وان حطت عن مهرها صحّ الحط كذا فی الهداية ولا بد فی صحّة حطّها من الرضا حتى لو كانت مُكرَهةً لم يصحّ “یعنی عورت نے اپنا حق مہر معاف کردیا ،تو یہ ٹھیک ہے، بشرطیکہ اس کی مکمل رضامندی ہو، یہاں تک کہ اگر مجبور ہوکر معاف کیا، تو معاف نہیں ہوگا۔(الفتاوی الھندیۃ،ج1،ص313،مطبوعہ:  پشاور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم