Nilkah Fasid Ko Faskh Karne Aur Is Ki Iddat Ke Ahkamat

نکاح فاسد کو فسخ کرنے اوراس کی عدت وغیرہ کے احکامات

مجیب: مولانا محمد سعید عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2217

تاریخ اجراء: 03جمادی الاول1445 ھ/18نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بغیر گواہوں کے نکاح ہوا،پھر شوہر سے اس نکاح  فاسدہ کو ختم کردیا،اب عورت پر عدت لازم ہوگی یا نہیں ؟خواہ جسمانی تعلق قائم ہو یا نہیں،اور اس کے بعد دوبارہ اسی شخص سے نکاح کرنا کیسا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مسلمان مردکامسلمان عورت سے نکاح ہوتواس نکاح کے منعقد ہونے کے لئے دو عاقل بالغ  مسلمان مرد یا ایک عاقل بالغ مسلمان مرد اور دوعاقل بالغ مسلمان عورتوں کاگواہ ہونا شرط ہے ،اور اگر  ان گواہوں کی موجودگی کے بغیر نکاح کیا گیا تو نکاح فاسد ہوگا۔

نکاح فاسد کا حکم یہ ہےکہ :

   اس میں مرد و عورت دونوں پر نکاح کو فسخ کرنا واجب ہے ،اس میں یہ ضروری نہیں کہ دوسرے کے سامنے فسخ کرے،بلکہ اگر دوسرا موجود نہیں جب بھی فسخ کرنے سے فسخ ہوجائے گا ،اس  کا طریقہ یہ بھی ہے کہ :

    مرد عورت کو اس طرح کے الفاظ کہے: میں نے اسے چھوڑا، یا چلی جا، یا نکاح کر لےوغیرہا۔ واضح رہے کہ لفظ طلاق سے بھی نکاح فسخ  ہوجائے گا۔

 نکاح فاسدمیں عدت:

   اب نکاح فسخ ہونے کے بعد عورت پر عدت اس وقت لازم ہے جبکہ نکاح فاسد کے بعد وطی (ہمبستری)ہوئی ہو۔ اس عدت  کا شمار وقت متارکہ یا فسخ سے کیا جا ئے گا،اور اگر وطی نہیں ہوئی خواہ خلوت صحیحہ ہوگئی ہو،تو عدت لازم نہیں۔

نکاح فاسدمیں مہر:

   یہی معاملہ مہر کے لازم ہونے او رنہ ہونے کے متعلق بھی ہے کہ اگر وطی ہوگئی تو مہر مثل لازم ہے جبکہ مہر مثل کی مقدار مہر مسمی یعنی جسے عقد  نکاح  میں ذکرکیا، سے زائد نہ ہو،اور اگر زائد ہے تو  پھر مہر مسمی دینا ہی لازم ہوگا ،اور اگر وطی نہیں ہوئی تو کچھ بھی لازم نہیں۔

   نکاح فاسد کے بعد اسی شخص سے  شرائط کی موجودگی میں نکاح ہوسکتا ہے،اور نکاح صحیح کے بعد شوہر کو بدستور تین طلاقوں کا حق حاصل رہے گا۔

   در مختار میں ہے” (و) شرط (حضور) شاهدين(حرين) أو حر وحرتين (مكلفين ۔۔۔مسلمين لنكاح مسلمة “ترجمہ: مسلمان عورت کے نکاح کے صحیح ہونے کے لئے دو مسلمان ،مکلف آزاد مرد یا ایک مرد و دو عورتوں کا بطور گواہ ہونا شرط ہے۔(در مختار،کتاب النکاح،ج 3،ص 21،22،23،دار الفکر،بیروت)

   درمختارمیں نکاح فاسدکی تعریف کرتے ہوئے فرمایا:”وھوالذی فقدشرطامن شرائط الصحۃ کشھود“ ترجمہ:اوریہ وہ نکاح ہے ،جس  میں صحت نکاح کی شرائط میں سے کوئی شرط مفقودہو مثلاگواہوں کاہونا۔ (درمختار، ج04، ص274،دار عالم الکتب)

   بہار شریعت میں   ہے:” نکاح فاسد میں جب تک وطی نہ ہو مہر لازم نہیں یعنی خلوتِ صحیحہ کافی نہیں اور وطی ہوگئی تو مہرِ مثل واجب ہے، جو مہر مقرر سے زائد نہ ہو اور اگر اس سے زیادہ ہے تو جو مقرر ہوا وہی دیں گے اور نکاحِ فاسد کا حکم یہ ہے کہ اُن میں ہر ایک پر فسخ کر دینا واجب ہے۔ اس کی بھی ضرورت نہیں کہ دوسرے کے سامنے فسخ کرے اور اگر خود فسخ نہ کریں تو قاضی پرواجب ہے کہ تفریق کر دے اور تفریق ہوگئی یا شوہر مر گیا تو عورت پر عدّت واجب ہے جبکہ وطی ہو چکی ہو ۔۔۔نکاح فاسد میں تفریق یامتارکہ کے وقت سے عدّت ہے، اگرچہ عورت کو اس کی خبر نہ ہو۔ متارکہ یہ ہے کہ اسے چھوڑ دے، مثلاً یہ کہے میں نے اسے چھوڑا، یا چلی جا، یا نکاح کر لے یا کوئی اور لفظ اسی کے مثل کہے اور فقط جانا، آنا ،چھوڑنے سے متارکہ نہ ہوگا، جب تک زبان سے نہ کہے اور لفظ طلاق سے بھی متارکہ ہو جائے گا۔۔۔ پھر اس سے نکاح صحیح کرنے کے بعد تین طلاق کا اسے اختیار رہے گا۔“(بہار شریعت ملتقطاً،ج02،حصہ 07، ص72، 73،مکتبۃ المدینۃ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم