Nikah Mein Mutlaq Mehr Zikr Kiya Tu Kya Nikah Durust Hoga ?

نکاح میں مطلق مہر ذکر کیا، تو کیا نکاح درست ہوگا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13138

تاریخ اجراء: 10جمادی الاولیٰ1445 ھ/25نومبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں کہ نکاح میں مہر معجل یا مؤجل کا کوئی ذکر نہیں کیا، فقط مہر کا ذکر کیا تو کیا یہ کافی ہوگا؟ کیا اس صورت میں وہ نکاح درست ہوگا ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     مہر مؤجل میں اصل تو یہ ہے کہ اُس  مہر کی مدت مقرر ہو، لیکن ہمارے عرف میں جب مہر مطلق رکھا جائے  تو اس سے طلاق یا موت کے وقت اُس مہر کو وصول کرنا مراد  ہوتا ہے، لہذا عرف و رواج کی بنا پر مطلق مہر  کی ادائیگی طلاق یا موت تک مؤخر ہوگی اور نکاح کی دیگر تمام شرائط پائی جانے کی صورت میں نکاح بھی درست واقع ہوگا۔

     چنانچہ فتح باب العنایۃ میں اس حوالے سے مذکور ہے: (والمعجل والمؤجل) ۔۔۔۔ (إن بينا) ۔۔۔۔۔ (فذاك)۔۔۔۔ (وإلا) وإن لم يبينا (فالمتعارف) فإن كانا في موضع يعجل فيه البعض، ويؤجل الباقي إلى الطلاق، أو الموت، ينظر كم يكون المعجل لمثل هذه المرأة من مثل هذا المهر في متعارف ذلك القوم، فيجعل ذلك معجلا، والباقي مؤجلا۔ترجمہ: ” مہرِ معجل اور مہرِ مؤجل کو اگر بیان کیا گیا ہو تو اُسی کے مطابق مہر کی ادائیگی کے احکام نافذ ہوں گے، ورنہ اگر مہر میں تعجیل و تاخیر کچھ بیان نہ کی گئی ہو، تو پھر عرف و رواج کے مطابق احکام نافذ ہوں گے۔ پس اگر میاں بیوی ایسی جگہ ہوں  جہاں کچھ مہر معجل ہوتا ہو اور باقی مہر طلاق یا موت  تک مؤجل ہوتا ہو، تو اب دیکھا جائے گا اِس جیسی عورت کا ایسا مہر اُس کی اپنی قوم میں کتنا معجل ہوتا ہے، لہذا اتنا ہی مہر معجل ہو گا اور باقی مہر مؤجل ہوگا۔ (فتح باب العناية بشرح "النُّقاية"،کتاب النکاح، ج02،ص64، دار الأرقم، بیروت، ملتقطاً)

     فتاوٰی رضویہ میں ہے:” مہر تین قسم ہے ۔۔۔۔ تیسرا مؤخر کہ نہ پیشگی کی شرط ٹھہری ہو نہ کوئی میعاد معین کی گئی ہو، یُونہی مطلق و مبہم طور پر بندھا ہو جیسا کہ آج کل عام مہر یوں ہی بندھتے ہیں۔ اس میں تا وقتیکہ موت یا طلاق نہ ہو، عورت کو مطالبہ کا اختیار نہیں۔ مہر معجل ومؤجل کے لئے شرع مطہر نے کوئی تعداد معین نہ فرمائی، جتنا پیشگی دینا ٹھہرے اس قدر معجل ہوگا ، باقی کی کوئی میعاد قرار پائی تو اتنا مؤجل ہوگا ورنہ مؤخر رہے گا، ہاں اگر کسی قوم یا شہر کا رواج عام ہوکہ اگر چہ تصریح نہ کریں مگر اس قدر پیشگی دینا ہوتا ہے تو بلاقرارداد تصریح بھی اُتنا معجل ہوجائے گا باقی بدستور مؤجل یا مؤخر رہے گا۔ “(فتاوٰی رضویہ،ج12،ص171،رضافاؤنڈیشن، لاھور، ملتقطاً)

    دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:” مہر میں جبکہ تعجیل و تاجیل کچھ بیان میں نہ آئی،  نہ یہ شرط کی جائے کہ کل اس قدر پیشگی لیا جائے گا ، نہ کوئی میعاد قرار پائے کہ فلاں وقت معلوم یا اتنی مدت کے بعدادا ہوگا تو اس وقت عرف ورواجِ بلد پر چھوڑا جائے گا۔ “(فتاوٰی رضویہ،ج13، ص424، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

     بہارِ شریعت میں ہے:” اگر مہرِ مطلق ہو اور وہاں کا عرف ہے کہ ایسے مہر میں کچھ قبل خلوت ادا کیا جاتا ہے تو اس کے خاندان میں جتنا پیشتر ادا کرنے کا رواج ہے، اس کا حکم مہرِ معجل کا ہے یعنی اس کے وصول کرنے کے ليے وطی و سفر سے منع کر سکتی ہے ۔   اور اگر مہرِ مؤجل یعنی میعادی ہے اور میعاد مجہول ہے، جب بھی فوراً دینا واجب ہے۔ ہاں اگر مؤجل ہے اور میعاد یہ ٹھہری کہ موت یا طلاق پر وصول کرنے کا حق ہے تو جب تک طلاق یا موت واقع نہ ہو وصول نہیں کرسکتی، جیسے عموماً ہندوستان میں یہی رائج ہے کہ مہرِ مؤجل سے یہی سمجھتے ہیں۔(بہارشریعت،ج 02، ص 75، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم