Nikah Ke Baad Rukhsati Se Pehle Nafqa Mangna

 

نکاح کے بعد رخصتی سے پہلے لڑکی کا اپنے نفقے کا مطالبہ کر نا

مجیب:مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2984

تاریخ اجراء: 15صفر المظفر1446 ھ/21اگست2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر لڑکی کا صرف نکاح ہوا ہو اور  رخصتی نہ ہوئی ہو، تو کیا لڑکی،لڑکے سے خرچے کا مطالبہ کر سکتی  ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   بالغہ عورت جب اپنے نفقہ کا مطالبہ کرے اور ابھی رخصتی نہیں  ہوئی ہے تو اُس کا مطالبہ درست ہے جبکہ شوہر نے اپنے مکان پر لے جانے کو اُس سے نہ کہا ہو۔ اور اگر شوہر نے اپنے مکان پرلے جانے کاکہا اور عورت نے انکار نہ کیا جب بھی نفقہ کی  مستحق ہے۔ اور اگرشوہرکے رخصتی کامطالبہ کرنے پر عورت نے انکار کیا تو اس کی  دوصورتیں  ہیں:  اگر کہتی ہے جب تک مہرِ معجل نہ دوگے نہیں  جاؤں گی جب بھی نفقہ پائے گی کہ اُس کا انکار نا حق نہیں۔  اور اگر انکار ناحق ہے مثلاً مہرِ معجل ادا کر چکا ہے یا مہر معجل تھا ہی نہیں  یا عورت معاف کرچکی  ہے تو اب نفقہ کی  مستحق نہیں  جب تک شوہر کے مکان پر نہ آئے۔

   بدائع الصنائع میں ہے”وأما شرط وجوب هذه النفقة۔۔۔۔فتسليم المرأة نفسها إلى الزوج وقت وجوب التسليم ونعني بالتسليم: التخلية وهي أن تخلي بين نفسها وبين زوجها برفع المانع من وطئها أو الاستمتاع بها حقيقة إذا كان المانع من قبلها أو من قبل غير الزوج فإن لم يوجد التسليم على هذا التفسير وقت وجوب التسليم فلا نفقة لها وعلى هذا يخرج مسائل ‘‘ ترجمہ:نفقہ کے وجوب کی شرط یہ ہے کہ عورت اپنی ذات کو تسلیم کے وجوب کے وقت خاوند کے سپرد کر دے۔ سپرد کر دینے سے ہماری مراد یہ ہے کہ بیوی اپنے اور خاوند کے درمیان تخلیہ کردے کہ خاوند کے لیے بیوی کے ساتھ مجامعت کرنے یا اس سے دیگر فوائد اٹھانے میں کوئی ایسا مانع نہ رہے جو بیوی کی طرف سے ہو یا بیوی کے علاوہ کسی اور کی طرف سے ہو،   لہذا اگر مذکورہ تفصیل کے مطابق تسلیم کے وجوب کے وقت تسلیم نہ پائی جائے تو عورت کے لیے کوئی نفقہ نہیں۔ اس قاعدے کی بناء پر متعدد مسائل نکلتے ہیں ۔

   مزید اسی میں ہے’’إذا لم ينقلها وهي بحيث لا تمنع نفسها وطلبت النفقة ولم يطالبها بالنقلة فلها النفقة؛ لأنه وجد سبب الوجوب  وهو استحقاق الحبس وشرطه وهو التسليم على التفسير الذي ذكرنا فالزوج بترك النقلة ترك حق نفسه مع إمكان الاستيفاء فلا يبطل حقها في النفقة فإن طالبها بالنقلة فامتنعت فإن كان امتناعها بحق بأن امتنعت لاستيفاء مهرها العاجل - فلها النفقة؛ لأنه لا يجب عليها التسليم قبل استيفاء العاجل من مهرها، فلم يوجد منها الامتناع من التسليم وقت وجوب التسليم‘‘ ترجمہ: جب آدمی اپنی بیوی کو خود اپنے مکان میں نہ لے جائے جبکہ بیوی کی طرف سے کوئی رکاوٹ نہ ہو اور وہ اس سے نفقہ کا مطالبہ کرے تو خاوند کو نفقہ  لازم ہو گا، کیونکہ وجوب نفقہ کا سبب یعنی حق حبس اور وجوب نفقہ کی شرط یعنی تسلیم اس تفصیل کے  مطابق جو ہم نے اوپر بیان کی   موجود ہے۔ اب خاوند کے اپنا حق چھوڑنے یعنی  بیوی کو اپنے گھر  میں نہ لے جانے سے،نفقہ میں  بیوی کا  حق باطل نہیں ہوگا،اور اگر خاوند عورت سے مطالبہ کرے کہ وہ اس کے گھر میں منتقل ہو مگر عورت انکار کر دے اب اگر اس کا یہ انکار اپنے کسی جائز حق مثلا مہر معجل کی وجہ سے ہو تو اسے نفقہ دینا ہوگا کیونکہ مہر معجل کی  وصولی سے قبل عورت کا اپنے آپ  کو خاوند کے سپرد کر دینا واجب نہیں تو گویا عورت کا اپنے آپ  کو تسلیم کے وجود کے وقت خاوند کے سپرد کر دینے سے یہ امتناع  یعنی رکنا اس کی طرف سے نہیں پایا گیا بلکہ خاوند کی طرف سے پایا گیا۔(بدائع الصنائع،کتاب النفقۃ،ج 4،ص 18،19،دار الکتب العلمیۃ،بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے :’’بالغہ عورت جب اپنے نفقہ کا مطالبہ کرے اور ابھی رخصت نہیں  ہوئی ہے تو اُس کا مطالبہ درست ہے جبکہ شوہر نے اپنے مکان پر لے جانے کو اُس سے نہ کہا ہو۔ اور اگر شوہر نے کہا تُو میرے یہاں  چل اور عورت نے انکار نہ کیا جب بھی نفقہ کی  مستحق ہے اور اگر عورت نے انکار کیا تو اس کی  دوصورتیں  ہیں  اگر کہتی ہے جب تک مہرِ معجل نہ دوگے نہیں  جاؤنگی جب بھی نفقہ پائے گی کہ اُس کا انکار نا حق نہیں  اور اگر انکار نا حق ہے مثلاً مہرِ معجل ادا کر چکا ہے یا مہر معجل تھا ہی نہیں  یا عورت معاف کرچکی  ہے تو اب نفقہ کی  مستحق نہیں  جب تک شوہر کے مکان پر نہ آئے۔"(بہار شریعت،ج 2،حصہ 8،ص 261،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم