Nikah Karwate Waqt Kalma Tayyiba Aur Dua Parhane Ka Hukum

نکاح کرواتے  وقت کلمہ طیبہ و دعا پڑھانے کا حکم

مجیب:مولانا محمد علی عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-3196

تاریخ اجراء:11ربیع الثانی1446ھ/15اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر نکاح خواں نے لڑکی کا نکاح کلمہ اور دعا پڑھائے بغیر کروادیا ،تو اس صورت میں نکاح پر کوئی اثر تو نہیں پڑے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نکاح کے صحیح ہونے کے لئے  کلمہ یا دعا وغیرہ پڑھانا شرط نہیں ہے، بلکہ نکاح دو گواہوں(یعنی دو مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں) کی موجودگی میں مردوعورت کے ایجاب و قبول کا نام ہے، نیز کلمہ طیبہ صرف قبول اسلام کے لئے  پڑھنا خاص نہیں ہے، بلکہ    کلمہ وغیرہ پڑھنا  پڑھانا ذکر اللہ  ہونے کی وجہ  سے باعث برکت و رحمت بھی ہے،اسی لئے  بوقت نکاح کلمہ طیبہ پڑھانے کے بہت سے فوائد کےساتھ، ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ زبان کی بے احتیاطی اور شرعی معلومات سے دوری کی بناء پر ممکن ہے کہ انسان سے کوئی ایسی بات صادر ہوجائے جو ایمان کے منافی ہو، لہذا بہتر ہے کہ کلمہ و استغفار پڑھا دیا جائے۔

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ سے سوال ہوا کہ زید کہتا ہے کہ متناکحین بالغین کو بوقت نکاح کلمے اورصفت ایمان مجمل ومفصل پڑھانا بہت ضرور و بہتر ہے، اس کو کرنا چاہئے،شاہ عبدالعزیز صاحب دہلوی قدس سرہ کے فتاوٰی میں ہے”از روئے شریعت غرانکاح درمیان مومن وکافر منعقد نمی گردد ظاہر است کہ ازانسان درحالت لاعلمی یاازروئے سہوا کثر کلمہ کفر صادر مے گردد کہ برآں متنبہ نمی شود، دریں صورت اگر نکاح متناکحین واقع شد منعقد نمی شود، لہٰذا متاخرین از علمائے محتاطین احتیاطا صفت ایمان مجمل ومفصل رابحضور متناکحین می گویند ومی گو یا نند تاانعقاد بحالت اسلام واقع شود فی الحققیت علمائے متاخرین ایں احتیاط را در عقد نکاح افزو دہ  اند خالی از نزاکت اسلامی نیست کسائے کہ از اسلام بہر ہ ندارند بلطف آن کے میرسند۔ انتہی“(یعنی:روشن شریعت کی روسے مومن و کافر کے درمیان نکاح نہیں ہوسکتا، ظاہر ہے کہ انسان سے لاعلمی میں کبھی سہواً کوئی کلمہ کفر صادرہوجاتا ہے  جس پر وہ آگاہ ہی نہیں ہوتا، تو اس صورت میں اگر مرد وعورت کا نکاح ہوا تو  منعقدنہیں ہوگا، لہذا محتاط علماء متاخرین مجلس نکاح میں صفت ایمان مجمل ومفصل خود بھی کہتے ہیں اورمردو عورت سے بھی کہلواتے ہیں تاکہ نکاح بحالت اسلام واقع ہو، علماء متاخرین نے عقد نکاح میں اس احتیاط کا جو اضافہ فرمایاہے وہ درحقیقت اسلامی نزاکت سے خالی نہیں، جو لوگ اسلام کے بارے میں معلومات نہیں رکھتے وہ اس کی لطافت تک کب پہنچ سکتے ہیں)۔یہ قول زید کا صحیح ہے یا نہیں؟

   تو آپ علیہ الرحمۃ نے جواباً ارشاد فرمایا:”بہتر ہونے میں کیا کلام کہ ذکر خدا ورسول جل جلالہ، وصلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم خیر محض ہے، خصوصاً تجدید ایمان، کہ ویسے بھی حدیث میں اس کا حکم ہے۔رسول اللہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم فرماتے ہیں:"ان الایمان لیخلق  فی جوف احدکم کما یخلق الثوب الخلق فاسئلوا ﷲ تعالٰی، ان یجدد الایمان فی قلوبکم" رواہ الطبرانی فی الکبیر عن ابن عمر بسند حسن والحاکم فی المستدرک عن عمر وبسند صحیح رضی ﷲ تعالٰی عنہم اجمعین( بیشک ایمان تم میں کسی کے باطن میں پرانا ہوجاتا ہے جیسے کپڑا کہنہ ہوجاتا ہے توا للہ عزوجل سے مانگوکہ تمھارے دلوں میں ایمان کو تازہ فرمائے" (اسے طبرانی نے کبیرمیں ابن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ سے سند حسن اور حاکم نے مستدرک میں حضرت عمرو رضی اللہ تعالٰی عنہم اجمعین سے سندِ صحیح  کے ساتھ روایت کیا)۔۔۔

   تو اس قدر ضرور مسلم کہ اس کو کرنا چاہئے، ہاں بہت ضروری کہنانوعِ افراط سے خالی نہیں، جہلاً یاسہواً معاذا للہ کلمہ کفر صادر ہوجانا محتمل سہی مگراسے مظنون ٹھہرالینا سوئے ظن ہے اور بے حصول ظن حکم ضرورت نہیں، کما لایخفی واللہ سبحانہ وتعالٰی اعلم۔(فتاوی رضویہ،ج 11،ص 207،208،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   وقار الفتاوی میں ہے” نکاح صحیح ہونے کیلئے یہ شرط نہیں ہے کہ کلمہ بھی پڑھایا جائے۔ لیکن آج کل زبان آزاد ہے اور جو منہ میں آتا ہے انسان بول دیتا ہے۔ لہٰذا بہتر یہ ہے کہ کلمہ اور استغفار پڑھا دیا جائے۔ لیکن بغیر پڑھائے بھی نکاح ہو جاتا ہے۔‘‘(وقار الفتاوی، ج 3، ص82 ،بزم وقار الدین،کراچی)

   نوٹ:یہ بات بھی ذہن نشین رہے کہ یہ عمومی و اصولی حکم بیان کیا گیا ہے، اگر لڑکا لڑکی والدین کی رضا مندی کے بغیر نکاح کر رہے ہوں، تو اس میں مزید وضاحت کی حاجت ہو گی، کیونکہ ایسی صورت میں بعض دفعہ نکاح سرے سے ہوتا ہی نہیں ہے، لہذا ا یسی صورت میں جداگانہ رہنمائی حاصل کر لی جائے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم