مجیب:مفتی ابوالحسن محمد ہاشم خان عطاری
فتوی نمبر:Jtl-1423
تاریخ اجراء:14 رجب المرجب 1445ھ/26 جنوری
2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ بعض لوگوں
کو دیکھاگیا ہے کہ وہ خطبہ
نکاح کے دوران آپس کی باتوں میں مشغول ہوتے ہیں
،لہٰذا رہنمائی فرمائیں کہ ایسا
کرنے کی شرعی حیثیت
کیا ہے؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
قوانین ِ شرعیہ کی رو سےجو لوگ خطبہ نکاح
سننے کےلیے حاضر ہوں ، ان تمام پر خطبہ کو خاموشی کے ساتھ سننا لازم ہے، لہٰذا اگر ان میں سے
کوئی شخص خطبہ کے دوران باتوں میں
مشغول ہوتا ہے ، تو وہ ناجائز کام کا مرتکب ہو گااور جو لوگ
خطبہ سننے کےلیے نہیں
، بلکہ دیگر اغراض مثلاً کھانے پینے کا انتظام یا ریکارڈنگ
وغیرہ کےلئے جمع ہوں ، ان کا خطبہ
کے دوران اپنے کام مشغول رہنا جائز ہے ؛اس میں شرعی طور پر کوئی
قباحت نہیں کہ ان لوگوں کی وہاں پر موجودگی خطبہ سننے کی
غرض سے نہیں ۔
فقہی نظیر:
اس کی فقہی
نظیر قرآن پاک کو سننے کےلیے جمع ہونے والے لوگوں کا مسئلہ ہے کہ جو لوگ تلاوت ِ کلام
پاک کو سننے کےلیے جمع ہیں ،
ان کا تلاوت کے دوران کسی اور کام میں
مشغول ہونا ، ناجائز ہے ، البتہ جو لوگ اس غرض سے جمع نہیں ہیں ، بلکہ
دیگر اَغراض کےلیے جمع ہیں ،وہ اگر کسی دوسرے کام میں
مشغول ہو جائیں ، تو ان کےلیے
ایسا کرنا ، جائز ہے ۔
جزئیات:
حنفی شارح ِ حدیث
بدرالدین محمود بن احمد بن موسى عینیرحمۃاللہ تعالی علیہ(المتوفی 855ھ) عمدۃ القاری
میں نقل فرماتےہیں:”الاستماع إلى خطبة النكاح
والختم وسائر الخطب واجب “ترجمہ:خطبہ نکاح ،خطبہ ختم(القرآن)اور دیگر تمام خطبوں کو
(خاموشی کے ساتھ )سننا واجب ہے۔ (عمدۃ القاری
جلد06،صفحہ230، مطبوعہ دار احیاء التراث،بیروت)
حنفی فقیہ
محمد بن علی علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ تعالیٰ
علیہ(المتوفی1088ھ ) درمختار میں لکھتے
ہیں :”يجب الاستماع لسائر الخطب
كخطبة نكاح وخطبة عيد “ ترجمہ:خطبہ نکاح اور خطبہ
عید وغیرہ تمام خطبوں کو سننا واجب ہے ۔(الدر المختار،جلد2،صفحہ159،دار الفكر،بیروت)
مجدد اعظم امام اہلسنت
مولانا الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فتاوی رضویہ
میں فرماتے ہیں:” کتب دینیہ میں
تصریح ہے کہ ہرخطبے حتی کہ خطبہ نکاح وخطبہ ختم قرآن کاسننا بھی
فرض ہے اور ان میں غل کرنا حرام حالانکہ خطبہ نکاح صرف سنت ہے اور خطبہ ختم
نرا مستحب۔“(فتاوی رضویہ،جلد24،صفحہ170، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
اسی طرح ایک
اور مقام پر ارشاد فرماتے ہیں :” ظاہر یہ ہے واللہ تعالیٰ اعلم کہ اگر کوئی
شخص اپنے لئےتلاوت قرآنِ عظیم بآواز کررہا ہے اور باقی لوگ اس کے سننے
کو جمع نہ ہوئے ، بلکہ اپنے اغراض متفرقہ میں ہیں ، تو ایک شخص
تالی کے پاس بیٹھابغور سن رہاہے ، ادائے حق ہوگیا ؛باقیوں
پر کوئی الزام نہیں، اوراگر وہ سب اسی غرض واحد کے لئے ایک
مجلس میں مجتمع ہیں ، تو سب پر سننے کا لزوم چاہئے ، جس طرح نماز میں
جماعت مقتدیان کہ ہر شخص پر استماع وانصات جداگانہ فرض ہے یا
جس طرح جلسہ خطبہ کہ ان میں ایک شخص مذکر اور باقیوں کو یہی
حیثیت واحدہ تذکیر جامع ہے ، تو بالاتفاق ان سب پرسننا فرض ہے
نہ یہ کہ استماع بعض کافی ہو جب تذکیر میں کلام بشیر
کاسنناسب حاضرین پر فرض عین ہوا تو کلام الٰہی کا استماع
بدرجہ اولیٰ۔‘‘(فتاوی رضویہ ،جلد23،صفحہ 353،رضافاؤنڈیشن،لاھور)
امیر اہلسنت ،ابو
بلال محمد الیاس عطار قادری دامت برکاتھم العالیہ ارشاد فرماتے ہیں :’’ جو چیزیں نَماز میں حرام ہیں مثلاًکھانا
پینا،سلام وجوابِ سلام وغیرہ یہ سب خُطبہ ِ (جمعہ )کی
حالت میں بھی حرام ہیں ؛ یہاں تک کہ امر بالمعروف
،ہاں خطیب امر بالمعروف کر سکتا ہے۔جب
خطبہ پڑھے تو تمام حاضرین پر سننا اور چُپ رہنا فرض ہے، جو لوگ امام سے دُور
ہوں کہ خُطبہ کی آواز ان تک نہیں پہنچتی ، اُنہیں بھی
چُپ رہنا واجب ہے ؛اگر کسی کو بُری بات کرتے دیکھیں تو
ہاتھ یا سر کے اِشارے سے منع کر سکتے ہیں ، زَبان سے ناجائز ہے۔رہی
بات نکاح کا خطبہ سننے کی تو جس طرح اورخطبوں کا سننا واجِب ہے ، ایسے
ہی نکاح کا خطبہ سننا بھی واجب ہے “(فیضان مدنی
مذاکرہ ،قسط14،صفحہ7،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا محرم میں نکاح جائز ہے؟
بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح کے احکام؟
پانچ سال کی بچی کو دودھ پلایا تھا کیا اس سےبیٹے کا نکاح ہوسکتا ہے؟
دوسگی بہنوں سے نکاح کرنے کا حکم ؟
زوجہ کی بھانجی سے دوسری شادی کرلی اب کیا حکم ہے؟
کیا چچازاد بہن کی بیٹی سے نکا ح جائز ہے؟
کیا ایک ساتھ تین شادیوں کا پروگرام کرسکتے ہیں؟
کیانکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے ؟