Nani Ka Doodh Peene Wale Khala Zaad Larka Larki Ka Aapas Mein Nikah Karna Kaisa ?

نانی کا دودھ پینے والے خالہ زاد لڑکا لڑکی کا آپس میں نکاح کرنا کیسا ؟

مجیب: مولانا فرحان احمد عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1025

تاریخ اجراء: 04ربیع الاول1445 ھ/21ستمبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   دو خالہ زاد کزن لڑکا لڑکی  دونوں کو بچپن میں مدتِ رضاعت کے اندر نانی نے ایک بار اپنا دودھ پلا دیا، تو اب وہ شادی کرنا چاہتے ہیں کیا اب ان دونوں کی شادی ہو سکتی ہے کیونکہ حدیث مبارکہ میں بھی ہے کہ ایک بار چوسنے یا دو بار چوسنے سے یا پستان کو ایک یا دو بار منہ میں داخل کرنے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی تو کیا اب دونوں خالہ زاد کزنز کی شادی ہو سکتی ہے جواب ارشاد فرما دیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں حرمت رضاعت ثابت ہوچکی ہے ،ان دونوں نے جب نانی کادودھ پیاتویہ آپس میں رضاعی بہن بھائی ہیں ان کاآپس میں نکاح کرناحرام ہے ،بلکہ نانی کادودھ پینے کی وجہ سے دیگرخالہ ،ماموں کے بچوں سے بھی حرمت ثابت ہوچکی ہے ، یہ مسئلہ ذہن نشین فرمالیں کہ حرمت رضاعت ثابت ہونے کے لیےایک بار دودھ پلانا بھی  کافی ہے اگرچہ وہ صرف ایک چسکی ہو ،اس میں پانچ یا اس سے کم و بیش بار پینےیا پیٹ بھرنے وغیرہ کی قید لگانا درست نہیں ۔اس کی چند وجوہات درج ذیل ہیں :

1۔قرآن پاک میں رضاعت کو مطلق حرمت کا سبب قرار دیاہے ، اگر کوئی قید ہوتی تو قرآن پاک میں یہ مسئلہ اسی قید کے ساتھ بیان کیا جاتا ۔

2۔حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ نے جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہوکر عرض کی کہ ایک عورت کہتی ہے ، میں نے تمہیں اور تمہاری بیوی کو دودھ پلایا ہے تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے چسکیوں کی کوئی تفصیل معلوم کیے بغیر جدا ہونے کا حکم ارشاد فرمایا ، اگر واقعی کسی مخصوص مقدار سے رضاعت ثابت ہوتی ،تو نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یہ معلوم کرواتے کہ کتنی بار دودھ پلایا ہے ؟ اس سے پتہ چلا کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے بھی قلیل و کثیر سب کا ایک ہی حکم دیا ہے ۔

3۔متعدد احادیث میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے کسی عددکو ذکر کیے بغیر مطلق رضاعت کو حرمت کا سبب قرارد یا ہے ،اس لیےایک بار تھوڑا سا دودھ پلانے سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہونے کا حکم دیاجائے گا۔حرمت رضاعت ثابت ہونے کے لیے چند بار پلانا ضروری ہوتا یا پیٹ بھر کر پلانا ضروری ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو ضرور بیا ن فرماتے مگر کسی بھی مقام پر مخصوص عدد کو ذکر نہ کرنا ، اس بات پر دلیل ہے کہ ایک بار تھوڑا سا دودھ پلانے سے بھی حرمت رضاعت ثابت ہو جائے گی۔

   بعض روایات ایسی ہیں جن سے ظاہر ہوتا ہے کہ دودھ پلانے کی حرمت پر چسکیوں کی ایک مخصوص تعداد ہونی چاہیے ان روایات پر عمل کرنا جائز نہیں ہے ۔اس کی وجوہات بیان ہوں گی لیکن اس سے پہلے اس طرح کی چند روایات ملاحظہ ہوں ۔

   دس چسکیوں کے متعلق روایت:”لا تحرم دون عشر رضعات فصاعدا  “یعنی دس  یا زائد چسکیوں سے ہی حرمت ثابت ہو گی۔(السنن الکبری للبیھقی ، کتاب الرضاع ، جلد7، صفحہ755، دار الکتب العلمیۃ)

   سات چسکیوں کے متعلق روایت  یہ ہے :”لا يحرم منها دون سبع رضعات“یعنی  سات چسکیوں سے کم میں حرمت ثابت نہیں ہو گی۔(مصنف عبد الرزاق، باب القلیل من الرضا ع، جلد87، صفحہ466، المجلس العلمی)

   تین اور پانچ چسکیوں کی روایت بھی ہے:”لا تحرم المصۃ ولا المصتان ولا الاملاجۃ ولا الاملاجتان“یعنی ایک دو چسکیوں اور ایک دو بار دودھ پلانے سے حرمت ثابت نہیں ہوتی ۔ (مسند بزار، مسند طلحہ بن عبید اللہ ، جلد3، صفحہ182، مکتبۃ العلوم والحکم)

   پانچ چسکیوں کے متعلق روایت:”کان فیما انزل من القرآن عشر رضعات معلومات یحرمن ثم نسخن بخمس معلومات“یعنی  قرآن پاک میں دس معلوم چسکیوں کا حکم نازل ہوا تھا پھر اسے پانچ معلوم چسکیوں سے منسوخ کر دیا گیا۔(صحیح مسلم، کتاب الرضاع ، جلد2، صفحہ1075، دار احیاء التراث العربی ) 

   ان روایات کے ہمارے علمائے کرام نے چند جوابات دئیے ہیں :

(1) یہ روایات نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے فیصلے کے خلاف ہیں ، اس لیے قابل عمل نہیں ۔

(2) عموم ِقرآن کے خلاف ہونے کی بنا پر ان روایات پر عمل کرنا ،جائز نہیں۔

(3)احادیث میں مختلف عدد بیان کیے گئے ہیں ، جب ان میں اختلاف واقع ہوا تو مطلق حکم قرآنی کی طرف رجوع کرنا لازم ہے تاکہ ایک یقینی حکم پر عمل کیا جا سکے ۔

(4) جو روایات اس ضمن میں پیش کی جاتی ہیں وہ روایات منسوخ ہیں اور منسوخ پر عمل کرنا ،جائز نہیں۔

   مطلقاً رضاعت سے حرمت ثابت ہونے کے متعلق اللہ تعالی کا ارشاد ہے :” وَ  اُمَّهٰتُكُمُ  الّٰتِیْۤ  اَرْضَعْنَكُمْ  وَ  اَخَوٰتُكُمْ  مِّنَ  الرَّضَاعَةِ “ترجمہ کنز  الایمان : (تم پر حرام ہوئیں )تمہاری وہ مائیں جنہوں نے دودھ پلایا اور دودھ کی بہنیں ۔(پارہ 4، سورۃ النساء ،آیت 23)

   بغیر کسی عدد کی قید کے حرمت رضاعت ثابت ہونے کے متعلق حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:”يحرم من الرضاع ما يحرم من النسب“ ترجمہ:جو رشتے نسب سے حرام ہوتے ہیں وہ رضاعت(دودھ کے رشتے کی وجہ ) سے بھی حرام ہوجاتے ہیں۔(بخاری،کتاب الشہادات ، باب الشہادۃ علی الخ ، جلد1، صفحہ360،مطبوعہ کراچی)

   امام بخاری رحمۃ اللہ تعالی علیہ روایت کرتے ہیں:”عن عقبۃ بن الحارث انہ تزوج ابنۃ لابی اھاب بن عزیز فاتتہ امراۃ فقالت انی قد ارضعت عقبۃ والتی تزوج بھا ، فقال لھا عقبۃ ما اعلم انک ارضعتنی ولا اخبرتنی فرکب الی رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم بالمدینۃ فسالہ فقال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، کیف وقد قیل ففارقھاعقبۃ ونکحت زوجا غیرہ“یعنی حضرت عقبہ بن حارث رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے ابو اہاب بن عزیز کی بیٹی سے شادی کی تو ایک عورت نے آ کر کہا ، میں نے عقبہ کو اور جس سے عقبہ نے شادی کی ہے ، ان دونوں کو دودھ پلایا ہے ، تو حضرت عقبہ نے فرمایا ، مجھے نہیں پتہ کہ تم نے مجھے دودھ پلایا ہے اور نہ تو نے (اس سے پہلے کبھی ) دودھ پلانے کی خبر دی ہے ، پھر آپ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے پاس مدینہ منورہ آئے اور سوال کیا توآپ علیہ السلام نے فرمایا :''(تو اس کے ساتھ )کیسے(رہ سکتا ہے )؟ جبکہ کہا گیا ہے (کہ تم دونوں نے ایک عورت کا دودھ پیا ہے )'' تو حضرت عقبہ نے اس عورت کو چھوڑ دیا اور اس عورت نے دوسرے شخص سے نکاح کر لیا ۔ (صحیح بخاری ، کتاب العلم ، باب الرحلۃ فی المسئلۃ النازلۃ ، جلد1، صفحہ19،مطبوعہ کراچی )

   مذکورہ بالا روایت کو کئی اسناد اور الفاظ سے نقل کرنے کے بعد امام طحاوی رحمۃ اللہ تعالی علیہ استدلال کرتے ہوئے فرماتے ہیں :”کان فی ھذا الحدیث ترک رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کشف عدد الرضاع الذی ذکرت تلک السوداء انھا ارضعت عقبۃ والمراۃ التی تزوجھا وفی ذلک ما قد دل علی استواء قلیلہ وکثیرہ فی الحرمۃ لانہ لو کان من شریعتہ ان لا تحرم الرضعۃ والرضعتان الی العدد المذکور فی ذلک الحدیث الذی روینا لاستحال ان یکون رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم یامر الذی سالہ بفراق من قد ارضعتہ والمراۃ التی قد تزوجھا المراۃ التی ذکرت لہ انھا ارضعتھما رضا عا لا یمنع من تزویجہ ایاھا ولکن یقف عقبۃ فیقول  لہ سلھا عن عدد الرضاع الذی ارضعتکما ، کم ھو؟ لیقف بذلک علی انہ من الرضاع الذی یحرم علیہ ان یتزوجھا اذا کان فی الحقیقۃ کذلک والتورع عن ذلک اذا کان الشک فیہاو انہ من الرضا ع الذی لا یحرم علیہ تزویجھا فیخلیہ وذلک التزویج ، وفی ترکہ کذلک ما قد دل علی انہ لا فرق کان عندہ بین قلیل الرضاع وبین کثیرہ فی الحرمۃ“یعنی اس حدیث میں نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کا سیاہ رنگ والی عورت سے حضرت عقبہ اور ان کی بیوی کو دودھ پلانے کی تعداد کا سوال نہ فرمانا اس پر دلیل ہے کہ حرمت میں قلیل اور کثیر برابر ہیں کیونکہ اگر نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کی شریعت میں ایک دو یا  روایت کردہ احادیث سے ثابت عدد مذکور تک چسکیاں حرمت ثابت نہیں کرتی  تو محال ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وسلم سوال کرنے والے کو جس نے خود اور اس کی بیوی نے ایسا دودھ پیا کہ شادی کرنا ہی منع ہو جائے ، ان کو جدائی کا حکم دیتے، بلکہ توقف کر کے  عقبہ سے فرماتے کہ اس عورت سے پوچھو ، اس نے کتنی بار تم دونوں کو دودھ پلایا ؟ تا کہ جانا جا سکے کہ یہ مقدار اتنی ہے کہ اگر حقیقت میں ایسا ہی ہو تو اس سے شادی کرنا حرام ہو جائے ، اور اس کے ثبوت میں شک ہو تو بچنا بہتر ہو اور اتنا دودھ پلایا ہو کہ جس سے  حرمت ثابت  نہیں ہوتی تو اسے اور اس کی بیوی کو چھوڑ دیا جائے ، اس پوچھنے کو ترک کرنے میں اس پر دلیل ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم کے نزدیک بھی حرمت میں قلیل و کثیر رضاعت میں کوئی فرق نہیں ۔ (شرح مشکل الآثار ، باب بیان مشکل ما روی الخ ، جلد11، صفحہ499، مؤسسۃ الرسالۃ)

   تھوڑا دودھ پلانے سے حرمت ثابت ہونے ، یہی جمہور فقہا کا مؤقف ہونے ، اختلاف والے اعداد کو چھوڑ کر مطلق حکم قرآنی پر عمل کرنے کے متعلق مذکورہ بالا عبارت کے تحت علامہ عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں :”قليل الرضاع وكثيره سواء إذا حصل في مدة الرضاع يتعلق به التحريم، وكذا روي عن علي بن أبي طالب - رَضِيَ اللّٰهُ تَعَالٰى عَنْهُ -، وعبد الله بن مسعود، وعبد الله بن عمر، وعبد الله بن عباس - رَضِيَ اللّٰهُ تَعَالٰى عَنْهُمْ -، وبه قال الحسن البصري وسعيد بن المسيب، وطاوس، وعطاء ومكحول، والزهري، وقتادة، وعمرو بن دينار، والحكم، وحماد، والأوزاعي، والثوري، ووكيع، وعبد الله بن المبارك، والليث بن سعد ومجاهد، وزاد الشيخ أبو بكر الرازي: عمر بن الخطاب - رَضِيَ اللَّهُ تَعَالَى عَنْهُ - والشعبي والنخعي. وقال ابن المنذر: وهو قول أكثر الفقهاء. وقال النووي: وهو قول جمهور العلماء۔۔۔  وھذا لان کل حق یتعلق بعلۃ فی الشرع یثبت الحکم بوجودہ لا تعدد فیہ ، وقیل لابن عمر ان ابن الزبیر یقول لا باس بالرضعۃ والرضعتین ، قال قضاء اللہ خیر من قضاء ابن الزبیر وقال ابو بکر ابن العربی الرضاع وصف ثبت بنفس الفعل وھذا معلوم عربیۃ وشرعا ، قال عزوجل وامھاتکم اللاتی ارضعنکم ارتبط التحریم بالرضاع مطلقا من غیر تقیید بخمس او سبع او عشر او نحو ذلک فمن قدرہ بعدد لا یدل القرآن علیہ فقد رفع حکم الایۃ بامر مضطرب لا یعول علیہ“یعنی دودھ پلانا تھوڑا ہو یا زیادہ ، جبکہ مدت رضاعت میں ہو ، اس سے حرمت ثابت ہو جائے گی ۔ اسی طرح حضرت علی ، عبد اللہ بن مسعود ، حضرت عبد اللہ بن عمر ، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہم سے مروی ہے ، حسن بصری ، سعید بن مسیب ، طاوس ، عطا ، مکحول ، زہری ، قتادہ ، عمر و بن دینار، حکم، حماد ، اوزاعی ، ثوری ، وکیع ، عبد اللہ بن مبارک ، لیث بن سعد ، مجاہد نے یہی بات بیان فرمائی ، شیخ ابو بکر رازی نے حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ ، شعبی اور نخعی کا اضافہ فرمایا جبکہ امام ابن منذر نے فرمایا یہ اکثر فقہاء کا قول ہے ، امام نووی علیہ الرحمہ نے فرمایا یہ جمہور علما کا قول ہے ۔۔۔ یہ اس وجہ سے کہ ہر وہ حق جو شریعت میں کسی علت سے متعلق ہواس کا حکم علت پائے جانے پر پایا جاتا ہے جس میں تعدد نہیں ہوتا، حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے عرض کی گئی کہ حضرت ابن زبیر رضی اللہ تعالی عنہ ایک دو چسکیوں میں حرج نہیں جانتے تو آپ نے فرمایا اللہ کا فیصلہ ابن زبیر کے فیصلے سے بہتر ہے ، امام ابو بکر ابن عربی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ رضاعت ایک وصف ہے جو نفس فعل سے پایا جاتا ہے اور یہ بات عربی لغت اور شریعت کےجاننے والے کو معلوم ہے ، اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا اور تمہاری رضاعی مائیں ، حرمت کو مطلق رضاعت سے معلق فرمایا  جس میں پانچ یا سات یا دس وغیرہ کسی عدد کی قید کو ذکر نہ فرمایا لہذا جو اسے کسی ایسے عدد سے خاص کرتا ہے جس پر قرآن دلالت نہیں کرتا تو اس نے آیت مبارکہ کے حکم کو ایسے مضطرب معاملے کی وجہ سے ختم کر دیا جس پر اعتماد نہیں کیا جا سکتا ۔ (بنایہ ، کتاب الرضاع ، جلد6، صفحہ291-294، مطبوعہ ملتان )

   پانچ بار پیٹ بھر کر دودھ پینے سے حرمت کے متعلق کوئی روایت نہ ہونے کے بارے میں مخالفین کی روایات و دلائل کو ذکر کرنے کے بعد علامہ ابن ہمام رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:”وھذا لیس بشئ اما اولا فلان مذھبہ لیس التحریم بخمس مصات بل بخمس مشبعات فی اوقات ۔۔۔۔وعلی ھذا فالتحقیق انہ لا یتاتی حدیثا واحدا“یعنی یہ دلائل کچھ حیثیت نہیں رکھتے ، اس کی پہلی وجہ یہ ہے کہ ان کا مؤقف یہ ہے کہ مطلقا پانچ چسکیاں حرمت کا سبب نہیں بلکہ پانچ بار پیٹ بھر کر پینےسے حرمت ثابت ہوتی ہے ۔۔۔  اسی بنا پر  تحقیق یہ ہے کہ مخالفین  اس پر ایک بھی حدیث نہیں لاسکتے ۔(فتح القدیر ، کتاب الرضاع، جلد3، صفحہ305، مطبوعہ کوئٹہ )

   ایک سے زیادہ چسکیوں والی روایات منسوخ ہونے کے متعلق امام ابو بکر جصاص رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”عن ابن عباس أنه سئل عن الرضاع فقلت: إن الناس يقولون لا تحرم الرضعة ولا الرضعتان قال: "قد كان ذاك, فأما اليوم فالرضعة الواحدة تحرم ۔۔۔۔فقد عرف ابن عباس وطاوس خبر العدد في الرضاع وأنه منسوخ بالتحريم بالرضعة الواحدة“یعنی حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ ان سے رضاعت کے بارے میں سوال ہوا تو میں نے کہا لوگ کہتے ہیں کہ ایک دو چسکیاں حرام نہیں کرتی ، آپ نے فرمایا یہ پہلے تھا ، اب ایک چسکی بھی حرام کر دیتی ہے ۔۔۔تحقیق حضرت ابن عباس اور طاؤس رضی اللہ عنہم نے  رضاعت کی تعداد کو جان لیا اور یہ بات بھی جان لی کہ یہ حکم ایک بار دودھ پلانے سے منسوخ ہو چکا ۔(احکام القرآن ،سورۃ آل عمران ، جلد2، صفحہ125، مطبوعہ لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم