Namaz Ki Pabandi Ko Haq Meher Muqarrar Karna

 

نماز کی پابندی کو حق مہر مقرر کرنا کیسا؟

مجیب:مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13055

تاریخ اجراء: 05 ربیع الثانی 1445 ھ/21 اکتوبر 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ شادی میں مہر کی جگہ یوں طے کیا جا سکتا ہے کہ شوہرجب تک حیات رہے گا، نمازوں کی پابندی کرے گا اور کبھی کوئی نماز قضا نہیں کرے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   مہر کامالِ متقوّم ( قیمتی مال) ہونا ضروری ہے  ۔جو چیز مالِ متقوم نہ ہو ،وہ مہر نہیں بن سکتی،لہٰذا نماز کی پابندی کرنے یا قضا نہ کرنے کو مہر کے طور پر ذکر کرنا درست نہیں کہ یہ تو سرے سے مال ہی نہیں،چہ جائیکہ متقوم ہو۔ نیز اگر مہر  مقرر کیا گیا تھا اور مہر کی کم سے کم  مقدار  10 درہم یعنی 2 تولہ ساڑھے سات ماشہ چاندی یا اس سے زیادہ کی مالیت کی تھی اور نماز والی بات بھی بیان کر دی گئی، تو مہر  وہی ہوا جو مالی طور پر مقرر کیا گیا اور اگر مالی طور پر سرے سے مہر مقرر ہی نہیں کیا گیا یا 10 درہم سے کم مالیت کا تھا، تو ایسی صورت میں مرد پر مہرِ مثل واجب ہوگا۔مہر ِمثل سے مراد والد کی طرف سے جو عورت کا خاندان ہے، اس خاندان کی اس جیسی عورتوں(مثلاً:بہن، پھوپھی،چچا زاد بہنوں) کا نکاح میں جو مہر مقرر ہوا وہی مہر اس عورت کے لیے مہرِ مثل ہوگا۔

   واضح رہے کہ پابندی کے ساتھ نماز کی ادائیگی ہر مسلمان پر فرض ہے اور جان بوجھ کر نمازیں قضا کرنا یا نماز کاوقت گزار کر ادا کرنا سخت ناجائز و گناہ ہے۔

   اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ  فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰ تُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةًترجمۂ کنز الایمان:’’اور اُن کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں کہ اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو قید لاتے نہ پانی گراتے ،تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو۔‘‘( پارہ 5، سورۃ النساء ، آیت 24)

   اس آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیراتِ احمدیہ و تفسیرِ نسفی میں ہے:”فیہ دلیل علی ان النکاح لا یکون الا بمھر وانہ یجب وان لم یسم وان غیر المال لا یصلح مھرا“یعنی اس آیت میں اس بات پر دلیل ہے کہ نکاح مہر  کے ساتھ ہی ہوگا اور مہر واجب ہوگا اگر چہ بیان نہ کیا جائے اور غیرِ مال مہر بننے کی صلاحیت نہیں رکھتا۔(تفسیرِ نسفی، جلد 1، صفحہ 348، بیروت)

   مبسوط میں ہے:”اشتراط صفۃ المالیۃ فی الصداق ثابت بالنص وھو قولہ تعالیٰ:﴿ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ ﴾یعنی مہر میں صفتِ مالیت کا شرط ہونا نص سے ثابت ہے اور وہ نص اللہ پاک کا فرمان ہے: کہ اپنے مالوں کے عوض تلاش کرو۔(المبسوط، جلد 5، صفحہ 106، مطبوعہ بیروت)

   درر الحکام میں ہے:”أن المشروع هو الابتغاء بالمال المتقوم والتعليم ليس بمال فضلا عن التقوم “یعنی مشروع مالِ متقوم  کے ذریعہ تلاش کرنا ہے  اور تعلیم تو مال ہی نہیں چہ جائیکہ متقوم ہو۔ (دررالحکام، جلد 1،صفحہ 342، مطبوعہ بیروت)

   مہر کی مقدار کے متعلق فتاویٰ عالمگیری میں ہے:”اقل المھر عشرۃ دراھم مضروبۃ او غیر مضروبۃ۔۔۔ و غیر الدراھم یقوم مقامھا باعتبار القیمۃ وقت العقد فی ظاھر الروایۃ “مہر کی کم از کم مقدار دس درہم ہے خواہ یہ ڈھلے ہوئے ہوں یا بغیر ڈھلے ہوئے اور درہم کے علاوہ کوئی چیز ہو، تو ظاہر الروایہ کے مطابق نکاح کے وقت قیمت کے اعتبار سے ان دراہم کے قائم مقام ہوگی ۔(فتاویٰ عالمگیری ، جلد 1 ، صفحہ 302 ، مطبوعہ  بیروت )

   فقیہِ ملت مفتی جلال الدین امجدی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”دس درہم چاندی دو تولہ ساڑھے سات ماشہ  کے برابر ہوتی ہے ، لہٰذااتنی چاندی نکاح کے وقت بازار میں جتنے کی ملے کم سے کم اتنے روپے کا مہر ہوسکتا ہے، اس سے کم نہیں ہوسکتا۔“(فتاوی فیض الرسول، جلد 1،صفحہ 712، شبیر برادرز،لاھور)

   ردالمحتار میں ہے:”یجب مھر المثل فیما لو تزوجھا علی ان یعلمھا القرآن  او نحوہ من الطاعات  لان المسمی لیس بمال“یعنی اگر عورت سے   تعلیمِ قرآن دینے یا اس جیسے کسی نیک کام پر نکاح کیا تو مہرِ مثل واجب ہوگا ، کیونکہ جو چیز بیان کی گئی وہ مال نہیں ہے۔(رد المحتار، جلد 3، صفحہ 107، مطبوعہ بیروت)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جو چیز مالِ متقوم نہیں وہ مہر نہیں ہو سکتی اور مہرِ مثل واجب ہوگا ، مثلاً:مہر یہ ٹھہرا کہ آزاد  شوہر عورت کی سال بھر خدمت کرے گا یا یہ کہ اسے قرآن مجید یا علمِ دین پڑھادےگا یا حج و عمرہ کرا دے گا۔“(بھارِ شریعت، جلد2،صفحہ 65،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   مہر ِمثل کے متعلق صدر الشریعہ رحمۃ اللہ علیہ ایک اور مقام پرفرماتے ہیں:” عورت  کے خاندان کی اُس جیسی عورت کا جو مہر ہو ،وہ اُس کے لیے مہر مثل ہے ، مثلاً :اس کی بہن ، پھوپھی ، چچا کی بیٹی وغیرہا  کا مہر ۔“(بھارِ شریعت ،جلد2، صفحہ71،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم