فتوی نمبر: FSD-9050
تاریخ اجراء: 15 صفر المظفر1446ھ /21 اگست 2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ غیر مسلم ہندو یا عیسائی مرد سے مسلمان عورت کا نکاح کرنا کیسا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
مسلمان عورت کا عیسائی یا ہندو مرد سے نکاح کرنا، ناجائز، گناہ، حرام اور باطل ہے، اگر معاذ اللہ نکاح کرے گی، تو وہ نکاح منعقد ہی نہیں ہو گا۔ یاد رکھیے کہ نکاح کی صورت میں عورت پر مرد کو کامل ولایت حاصل ہو تی ہے، نیز عورت اپنے شوہر کی عادات واَطْوار اپنانے میں منفعل مزاج ہوتی ہے، لہذا کافر مرد کے نکاح میں دینا یقینی اور بدیہی طور پر عورت کے اپنے اور پھر آئندہ آنے والی نسل کے دین کی تباہی کا سبب ہو گا۔اِسی عبرت ناک نتیجے کو اللہ تعالیٰ نے یوں بیان فرمایا﴿ یَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ﴾ترجمہ: وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں۔( پ 02، البقرة:221) لہذا قرآنِ حکیم کی نصوصِ قطعیہ اور فقہائے کرام کے بیان کردہ احکامات کی روشنی میں مسلمان عورت کا کسی بھی طرح کے کافر سے نکاح نہیں ہو سکتا، خواہ وہ ہندو، عیسائی، سکھ، یہودی یا دہریہ ہو۔
اللہ تعالیٰ نےارشاد فرمایا:﴿ لَا هُنَّ حِلٌّ لَّهُمْ وَ لَا هُمْ یَحِلُّوْنَ لَهُنَّ ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’نہ یہ ان (کافروں ) کے لیے حلال ہیں اورنہ وہ (کافر) ان کے لیے حلال ہیں۔‘‘( پارہ 28، سورۃ الممتحنۃ، آیت10)
دوسرے مقام پر ارشاد فرمایا:﴿وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِكٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَكُمْ اُولٰٓىٕكَ یَدْعُوْنَ اِلَى النَّارِ﴾ترجمہ کنزالعرفان:’’ اور (مسلمان عورتوں کو) مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں اور بیشک مسلمان غلام مشرک سے اچھا ہے، اگرچہ وہ مشرک تمہیں پسندہو، وہ دوزخ کی طرف بلاتے ہیں۔‘‘( پارہ 2،سورۃ البقرۃ،آیت221)
ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:”منها اسلام الرجل إذا كانت المرأة مسلمة فلا يجوز إنكاح المؤمنة الكافر؛ لقوله تعالى:﴿وَ لَا تُنْكِحُوا الْمُشْرِكِیْنَ حَتّٰى یُؤْمِنُوْا﴾ولأن في إنكاح المؤمنة الكافر خوف وقوع المؤمنة في الكفر؛ لأن الزوج يدعوها إلى دينه، والنساء في العادات يتبعن الرجال فيما يؤثرون من الأفعال ويقلدونهم في الدين۔۔۔فلايجوز إنكاح المسلمة الكتابي كما لا يجوز إنكاحها الوثني والمجوسي ‘‘ترجمہ:مسائلِ نکاح میں سے مرد کا مسلمان ہونا بھی ضروری ہے، جب عورت مسلمان ہو، لہذا مؤمنہ عورت کا کافر مرد سے نکاح کرنا، جائز نہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:”اور (مسلمان عورتوں کو) مشرکوں کے نکاح میں نہ دو جب تک وہ ایمان نہ لے آئیں “ دوسری وجہِ حرمت یہ ہے کہ مومنہ کو کافر کے نکاح میں دینے سے ایمان والی عورت کا کفر کی دلدل میں پھنسنے کا قوی اندیشہ ہے، کیونکہ یقیناً شوہر اُسے اپنے دین کی طرف بلائے گا اور عورتیں عموماً عادات میں مَردوں کے پیچھے ہی چلتی ہیں، لہذا مرد جن کاموں کو ترجیح دیں گے، نیز جس دین کی پیروی کریں گے، عورت بھی بالتدریج اُسی طرف چل پڑے گی، لہٰذا مسلمان عورت کا کسی کتابی مرد سے بھی نکاح جائز نہیں ہے، جیسا کہ کسی بت پرست اور مجوسی مرد سے نکاح جائز نہیں۔(بدا ئع الصنائع، جلد03،کتاب النکاح، صفحہ465،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
امامِ اہلِ سنَّت ، امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1340ھ/1921ء) نے لکھا:’’مسلمان عورت کا نکاح مطلقاً کسی کافر سے نہیں ہوسکتا۔ کتابی ہو یا مشرک یا دہریہ،یہاں تک کہ اُن کی عورتیں جو مسلمان ہوں، اُنہیں واپس دینا حرام ہے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ، جلد11،صفحہ511،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
دوسرے مقام پر آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے ہندوؤں کے ساتھ مناکحت کے متعلق سوال ہوا، تو آپ نے اُن سے نکاح کو ”باطل“ قرار دیتے ہوئے لکھا:مسلمان عورت کا اُن سے یا مسلمان مرد کا ایسی عورت سے نکاح باطل وحرام ہے۔“(فتاوٰی رضویہ، جلد14،صفحہ370،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
مسلمان عورت کے کافر مرد سے نکاح کرنے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی دینی اور معاشرتی خرابیوں پر تبصرہ کرتے ہوئے ڈاکٹر وہبہ زحیلی نے لکھا:’’سبب تحريم زواج المسلم بالمشركة و المسلمة بالكافر مطلقا كتابيا كان أو مشركا: هو أن أولئك المشركين والمشركات يدعون إلى الكفر والعمل بكل ما هو شرّ يؤدي إلى النار، إذ ليس لهم دين صحيح يرشدهم، ولا كتاب سماوي يهديهم إلى الحق، مع تنافر الطبائع بين قلب فيه نور وإيمان وبين قلب فيه ظلام وضلال. فلا تخالطوهم ولا تصاهروهم، إذ المصاهرة توجب المداخلة والنصيحة والألفة والمحبة والتأثر بهم، وانتقال الأفكار الضالة، والتقليد في الأفعال والعادات غير الشرعية، فهؤلاء لا يقصرون في الترغيب بالضلال، مع تربية النسل أو الأولاد على وفق الأهواء والضلالات‘‘ترجمہ:مسلمان مرد کے مشرکہ عورت کے ساتھ اور مسلمان عورت کے علی الاطلاق کافر مرد، خواہ وہ کتابی ہو یا مشرک، کے ساتھ نکاح کے ناجائز ہونے کی وجہ یہ ہے کہ مشرک مرد اور عورتیں، کفر اور واصل جہنم کرنے والے اعمالِ شرکے داعی ہوتے ہیں، کیونکہ ان کے پاس باعثِ ہدایت کوئی دینِ حق اور پھر اُس کی طرف رہنمائی کرنے والی کوئی آسمانی کتاب نہیں ہے، نیز ایسا دل کہ جس میں نورِ ایمان وہدایت ہو، وہ ایسے دل سے طبعی نفرت رکھتا ہے، جس دل میں کفر کی تاریکی اور گمراہی کا بسیرا ہو، لہذا نہ تو اُن کے ساتھ اختلاط کرو اور نہ ان کے ساتھ رشتہ داریاں قائم کرو،کیونکہ اُن سے رشتے داریاں بنانا، باہمی تعلق ، خیر خواہی، محبت و الفت، اُن سے متاثر ہونے، گمراہ کن افکار کے منتقل ہونے اور غیر شرعی عادات و اعمال کی تقلید کا باعث ہوتی ہیں؛ اس لیے کہ یہ لوگ گمراہی کی ترغیب کے ساتھ ساتھ اپنی خواہشات اور گمراہیوں کے مطابق نسل کی تربیت میں کوتاہی نہیں کرتے۔(التفسیر المنیر، جلد 02، صفحہ 292، مطبوعہ دار الفکر، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا محرم میں نکاح جائز ہے؟
بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح کے احکام؟
پانچ سال کی بچی کو دودھ پلایا تھا کیا اس سےبیٹے کا نکاح ہوسکتا ہے؟
دوسگی بہنوں سے نکاح کرنے کا حکم ؟
زوجہ کی بھانجی سے دوسری شادی کرلی اب کیا حکم ہے؟
کیا چچازاد بہن کی بیٹی سے نکا ح جائز ہے؟
کیا ایک ساتھ تین شادیوں کا پروگرام کرسکتے ہیں؟
کیانکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے ؟