Mehr Muajjal Ki Adaigi Se Pehle Shohar Aur Biwi Ke Milap Ka Hukum

مہر معجل کی ادائیگی سے پہلے شوہر و بیوی کےملاپ کاحکم

مجیب: مولانا محمد نوید چشتی عطاری

فتوی نمبر:WAT-3125

تاریخ اجراء:20ربیع الثانی1446ھ/24اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نکاح میں مہر معجل  لکھا ہو، تو کیا اس کی ادائیگی سے پہلے میاں بیوی کا ملاپ حرام و گناہ ہوتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    پوچھی گئی صورت میں اگر زوجہ کی رضامندی سے ازدواجی تعلق ہو، تو حلال ہے، البتہ  مہر اگر معجل ہے یعنی خلوت سے پہلے دینا قرار پایا ہے ،  تو اس کی ادائیگی سے پہلے عورت  کو اختیار ہے کہ اگر وہ چاہے، تو  وطی (ہمبستری) و مقدماتِ وطی(ہمبستری سے پہلے والے امورجیسے بوسہ لیناوغیرہ) سے شوہر کو باز رکھے، خواہ کل معجل ہو یا بعض اور شوہر کو حلال نہیں کہ عورت کو مجبور کرے، اگرچہ اس سے پہلے عورت کی رضا مندی سے وطی و خلوت ہو چکی  ہو یعنی یہ حق عورت کو ہمیشہ حاصل ہے، جب تک وصول نہ کر لے،لہذااگرایک دفعہ عورت نے ہمبستری کی اجازت دے دی اورابھی تک مہرمعجل ادانہیں ہواتواس کی ادائیگی سے پہلے اب  اگلی مرتبہ ہمبستری اوراس کے مقدمات سے عورت روک سکتی ہے ۔

    بہارِ شریعت میں ہے ” مہر تین قسم ہے: 1معجل کہ خلوت سے پہلے مہر دینا قرار پایا ہے۔اور2مؤجل جس کے ليے کوئی میعاد مقرر ہو۔ اور3مطلق جس میں نہ وہ ہو، نہ یہ ۔اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کچھ حصہ معجل ہو، کچھ مؤجل یا مطلق یا کچھ مؤجل ہو، کچھ مطلق یا کچھ معجل اور کچھ مؤجل اور کچھ مطلق۔مہرِمعجل وصول کرنے کے ليے عورت اپنے کو شوہر سے روک سکتی ہے یعنی یہ اختیار ہے کہ وطی و مقدمات وطی سے باز رکھے، خواہ کل معجل ہو یا بعض اور شوہر کو حلال نہیں کہ عورت کو مجبور کرے، اگرچہ اس کے پیشتر عورت کی رضامندی سے وطی و خلوت ہو چکی ہو یعنی یہ حق عورت کو ہمیشہ حاصل ہے، جب تک وصول نہ کر لے۔ يوہيں اگر شوہر سفر میں لے جانا چاہتا ہے تو مہرِ معجل وصول کرنے کے ليے جانے سے انکار کرسکتی ہے۔ يوہيں اگر مہرِ مطلق ہو اور وہاں کا عرف ہے کہ ایسے مہر میں کچھ قبل خلوت ادا کیا جاتا ہے تو اس کے خاندان میں جتنا پیشتر ادا کرنے کا رواج ہے، اس کا حکم مہرِ معجل کا ہے یعنی اس کے وصول کرنے کے ليے وطی و سفر سے منع کر سکتی ہے ۔اور اگر مہرِ مؤجل یعنی میعادی ہے اور میعاد مجہول ہے، جب بھی فوراً دینا واجب ہے۔ ہاں اگر مؤجل ہے اور میعاد یہ ٹھہری کہ موت یا طلاق پر وصول کرنے کا حق ہے تو جب تک طلاق یا موت واقع نہ ہو وصول نہیں کرسکتی۔" (بہار شریعت،ج 2،حصہ 7،ص 74،75،مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم