مجیب: مفتی ابو محمد علی
اصغر عطاری مدنی
فتوی نمبر: Nor-12073
تاریخ اجراء: 21شعبان المعظّم1443
ھ/25مارچ2022 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا
فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ مجھے حق مہر سے
متعلق دو سوالات کا حل مطلوب ہے:
(1)عاقلہ بالغہ لڑکی کا نکاح اس کے گھر
والوں کی رضامندی سے ہواورلڑکی کا والدلڑکے کوحق مہرمعاف کردے ۔شریعت
اس بارے میں کیا کہتی ہے؟
(2)ہمارے ہاں بعض مقامات پر ایسا ہوتا ہے
کہ جب عورت کا انتقال ہونے لگتا ہےیا وہ مرض الموت میں ہواور اس کا
شوہر حیات ہو تواس حالت میں عورت کے ورثاء اس سے حق مہر معاف کرواتے ہیں
اور عورت معاف کردیتی ہےاور بعض جگہ عورت کے ورثاء ڈیمانڈ نہیں
کرتے بلکہ عورت رسم ورواج کو دیکھتے ہوئے از خودمہر معاف کردیتی
ہے۔اس معاف کرنے کی شرعی حیثیت کیا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
(1)بالغہ لڑکی کا حق مہر اس کا والد معاف نہیں
کرسکتا اگر والد معاف کرے گا، تو جب تک لڑکی اپنی مکمل رضامندی
سےاس معافی کو تسلیم نہ کرلے ، حق مہر معاف نہیں ہوگااورشوہرپر
حق مہر بدستور لازم رہے گا، یونہی لڑکی نےباپ کی معافی
کو قبول کیا، مگر لڑکی کی اس میں رضا شامل نہیں، تو
بھی حق مہر معاف نہیں ہوگا ،ہاں لڑکی نےباپ کی معافی
کو اپنی مکمل رضا مندی کے ساتھ قبول کیااورشوہرنےاس معافی
سے انکار نہ کیا، تو اب شوہر پر حق مہر لازم نہ رہا۔
مہر معاف ہونے کے لیے عورت کی رضامندی
ضروری ہے، جیساکہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِہِنَّ نِحْلَۃً ؕفَاِنۡ طِبْنَ لَکُمْ عَنۡ
شَیۡءٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوۡہُ ہَنِیۡٓــًٔا
مَّرِیۡٓــًٔا﴾ترجمہ کنزالایمان:’’اور عورتوں کے ان کے مہر خوشی سے دو
،پھر اگر وہ اپنے دل کی خوشی سے مہر میں سے تمہیں کچھ دے
دیں ،تو اسے کھاؤ رچتا پچتا۔‘‘(القرآن الکریم،پارہ4،سورۃ النساء،آیت:04)
اس آیتِ
مبارکہ کے تحت صدر الافاضل مولانا مفتی نعیم الدین مراد آبادی
علیہ الرحمۃ فر ماتے ہیں:” عورتوں
کو اختیار ہے کہ وہ اپنے شوہروں کو مَہر کا کوئی جزو ہبہ کریں یا
کل مہر مگر مہر بخشوانے کے لیے انہیں مجبور کرنا،ان کے ساتھ بدخلقی
کرنا نہ چاہئے ،کیونکہ اللہ تعالیٰ نے﴿طِبْنَ لَکُمْ﴾ فرمایا
جس کے معنیٰ ہیں:دل کی خوشی سے معاف کرنا ۔“ (تفسیر
خزائن العرفان،سورۃ النساء،آیت04،ص153،مکتبۃ
المدینہ)
مہر
معاف ہونے کے لیے عورت کی رضامندی ضروری ہے،جبری مہر
معاف کرانا درست نہیں، جیساکہ فتاوی عالمگیری میں
ہے:”وان حطت عن مهرها صحّ الحط كذا فی
الهداية ولا بد فی صحّة حطّها من الرضا حتى لو كانت مُكرَهةً لم يصحّ “یعنی عورت نے اپنا حق مہر معاف
کردیا ،تو یہ ٹھیک ہے، بشرطیکہ اس کی مکمل رضامندی
ہو،یہاں تک کہ اگر مجبور ہوکر معاف کیا، تو معاف نہیں ہوگا۔(الفتاوی الھندیۃ،ج1،ص313،مطبوعہ پشاور)
بالغہ لڑکی کا حق مہر اکیلاباپ معاف نہیں
کرسکتا، جیساکہ فتاوی شامی میں ہے:”(قولہ:وصح حطها
) الحط الاسقاط كما فی المغرب وقيد بحطها لان حط ابيها غير صحيح لو صغيرة ولو
كبيرة توقف عن اجازتها ولا بدّ من رضاها“یعنی درِّمختار میں جو یہ کہا کہ
عورت اپنا مہر معاف کرسکتی ہے، تو یہ قید اس لیے لگائی
کہ اگر عورت نابالغہ ہے اور اس کا باپ معاف
کرنا چاہتا ہے، تومعاف کرنا صحیح نہیں اوربالغہ ہے تو اس کی
اجازت اوررضامندی پر معافی موقوف ہے۔( ردّ المحتارمع درمختار،ج4،ص239،مطبوعہ کوئٹہ)
صدر
الشریعہ مفتی امجدعلی اعظمی علیہ الرحمۃ
فرماتے ہیں:”عورت کل مہر یا جز معاف کرے ،تو معاف ہوجائے گا، بشرطیکہ
شوہر نے انکار نہ کردیا ہو اور اگر عورت نابالغہ ہے اور اس کا باپ معاف
کرنا چاہتا ہے، تو نہیں کرسکتا اور بالغہ ہے تو اس کی اجازت پر معافی
موقوف ہے۔“(بھار شریعت،ج2،حصہ7،ص68،مطبوعہ
مکتبۃ المدینہ)
(2)عورت مرض الموت میں ہویا بوقتِ نزع خود اپنامہر
معاف کرے یابیوی سے کوئی حق مہر معاف کرائےاوربیوی
اس کی تصدیق کرے،تواس طرح مہر
معاف نہیں ہوگا ،جب تک دیگرورثاء کی اجازت نہ ہو،ہاں دیگر
ورثاء نے اس معافی کو تسلیم کرلیا، تو اب شوہر سے حق مہر ساقط
ہوجائے گا۔
عورت
مرض الموت میں ہو، تو اس حالت میں مہر معاف کرنے سے معاف نہ ہوگا،جیساکہ
بحر الرائق،فتاوی عالمگیری اور فتاوی شامی میں
ہے: واللفظ للبحر”ولا بد فی
صحّة حطّها من ان لا تكون مريضة مرض الموت“یعنی مہر معاف ہونےکے لیےضروری
ہے کہ عورت مرض الموت میں نہ ہو۔ (البحر الرائق،ج3،
ص264، مطبوعہ کوئٹہ)
شیخ الاسلام والمسلمین امام اہلسنّت امام احمد رضا خان علیہ الرحمۃ سے
سوال ہوا:”اگر کسی نے بی بی کے نزع کے وقت اس سے
کہا کہ میرا دَین مہرمعاف کیا۔ اس نے زبان سے بوجہ آواز
بند ہوجانے کے جواب نہ دیا،لیکن سر ہلادیا، تواس کا دَین
مہر معاف ہوا یانہیں؟ “
اس کے جواب میں آپ علیہ الرحمۃ نے فرمایا:”مرض الموت میں مہر کی معافی بے اجازت دیگر ورثاء معتبر نہیں۔“(فتاوی
رضویہ ، ج12، ص180،181، رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا محرم میں نکاح جائز ہے؟
بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح کے احکام؟
پانچ سال کی بچی کو دودھ پلایا تھا کیا اس سےبیٹے کا نکاح ہوسکتا ہے؟
دوسگی بہنوں سے نکاح کرنے کا حکم ؟
زوجہ کی بھانجی سے دوسری شادی کرلی اب کیا حکم ہے؟
کیا چچازاد بہن کی بیٹی سے نکا ح جائز ہے؟
کیا ایک ساتھ تین شادیوں کا پروگرام کرسکتے ہیں؟
کیانکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے ؟