مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری
مدنی
فتوی نمبر:Gul-3135
تاریخ اجراء:12شعبان المعظم 1445 ھ/23فروری2024 ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین و
مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارےمیں
کہ بعض لوگ عید الفطر
اور عیدالاضحیٰ کے درمیان نکاح کرنے کو منحوس سمجھتے ہیں اور ان دنوں میں نکاح نہیں کرتے کہ یہ مستقبل میں میاں
بیوی کے لیے اچھا نہیں ہوتا، یہ نکاح کامیاب نہیں ہوتا، میاں بیوی
کے دل نہیں ملتے۔کیا واقعی اس میں کوئی شرعی
،اخلاقی یا دیگر
کوئی قباحت ہے ؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نکاح اور شادی کسی دن منع نہیں، سال کے تمام
مہینوں اور ہر مہینے کے تما م دنوں اور تاریخوں میں نکاح
جائز ہے،لہٰذا عید
الفطر و عید الاضحٰی کے درمیان کے زمانے میں نکاح بالکل جائز ہے، بلکہ علمائے
کرام نے شوال کے مہینے میں نکاح کو مستحب فرمایا ہے۔ خود
رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ
وسلم نے اُم المؤمنین حضرت
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ماہِ شوال میں نکاح فرمایا اور سیدہ
عائشہ رضی اللہ عنہا کی رخصتی بھی ماہِ شوال میں
ہوئی جو دونوں عیدوں کے
درمیان کا زمانہ ہے۔
بعض لوگ عیدین کے درمیان اس
اعتقاد کی بناپرشادی نہیں کرتے کہ عیدین کے
درمیان نکاح یا شادی کرنا منحوس ہے اور یہ مستقبل
میں میاں بیوی کے لیے اچھا نہیں ہوتا،
یہ نکاح کامیاب
نہیں ہوتا، میاں بیوی کے دل نہیں ملتے،ان کا یہ اعتقاد محض باطل ومردود
ہے،جس کی کوئی اصل نہیں۔ زمانہ جاہلیت میں لوگ
شوال کے مہینے
میں نکاح کو منحوس
سمجھتے تھے اور کہتے
تھے کہ یہ نکاح کامیاب نہیں ہوتا ، میاں بیوی
کے دل نہیں ملتے، اس کا اسلامی
تعلیمات سے کوئی تعلق نہیں، آج بھی اگر کوئی اس طرح
کا نظریہ رکھتا ہے، تو یہ اس کی جہالت ہے۔
صحيح مسلم میں ہے:”عن عائشة قالت:
تزوجنی رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم فی شوال، وبنى بی فی
شوال، فأی نساء رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم كان أحظى عنده منی؟ قال:
وكانت عائشة تستحب أن تدخل نساءها فی شوال“ ترجمہ: حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہا بیان کرتی
ہیں کہ رسول اکرم صلی
اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے شوال کے مہینے میں نکاح
کیااور زفاف بھی شوال کے مہینے میں فرمایا، تو رسول اﷲصلی
اللہ علیہ وسلم کو کون سی بیوی مجھ سے زیادہ محبوب
تھی؟ام المؤمنین حضرت عائشہ رضی
اللہ عنہااس بات کو پسند
کرتی تھیں کہ ان کی
ماتحت عورتوں کی رخصتی شوال
میں ہو۔(صحيح المسلم ،جلد2،صفحہ
1039، دار إحياء التراث العربی،
بيروت)
اس حدیثِ پاک کے تحت شرح النووی علی مسلم
میں ہے:”فيه استحباب التزويج والتزوج والدخول فی شوال وقد نص
أصحابنا على استحبابه واستدلوا بهذا الحديث وقصدت عائشة بهذا الكلام رد ما كانت
الجاهلية عليه وما يتخيله بعض العوام اليوم من كراهة التزوج والتزويج والدخول في
شوال وهذا باطل لا أصل له وهو من آثار الجاهلية“یعنی:اس
حدیثِ پاک میں یہ بیان کیا گیا ہے کہ نکاح
کرنا ،نکاح کروانا اور رخصتی شوال
میں ہونا مستحب ہے۔ ہمارے فقہاء نے اس استحباب کو واضح طور پر بیان کیا اور اسی
حدیث سے استدلال کیا ہے۔ حضرت سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نےاس کلام سے اس غلط
فہمی کا رد فرمایا ہے، جس پر دورِ جاہلیت کے لوگ تھے اور بعض
لوگ آج بھی یہی خیال رکھتے ہیں یعنی
یہ بات کہ شوال میں نکاح کرنا،
نکاح کروانا اور رخصتی کرنا ناپسندیدہ عمل ہے ،حالانکہ یہ
خیال باطل ہے ،اس کی کوئی اصل نہیں ، یہ دورِ
جاہلیت کے آثار میں سے ہے ۔(شرح النووی على
مسلم ،جلد9،صفحہ 209، دار إحياء التراث العربی،
بيروت)
مرقاۃ المفاتیح میں ہے:”لأنها سمعت بعض الناس يتطیرون
ببناء الرجل على أهله فی شوال لتوهم اشتقاق شوال من أشال بمعنى أزال فحكت ما
حكت ردا لذلك وإزاحة للوهم “یعنی:کیونکہ
انہوں نے بعض لوگوں کو شوال میں بیوی کے ساتھ ہمبستری سے
متعلق بدشگونی کرتے ہوئے سنا، اس وہم کی وجہ سے کہ شوال اشال سے نکلا
ہے جس کا معنی زائل کرنا ہے،تو انہوں نے اس کے رد میں اور اس وہم کو دور کرنے کے لیے
جو کچھ بیان کیا وہ بیان کیا ۔(مرقاة المفاتيح شرح
مشكاة المصابيح ،جلد5،صفحہ 2066، مطبوعہ بیروت)
مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ
الرحمۃ فرماتے ہیں:”اہل
عرب شوال کے مہینہ میں نکاح یا رخصتی منحوس جانتے تھے اور
کہتے تھے کہ اس مہینہ کا نکاح کامیاب نہیں ہوتا ، میاں
بیوی کے دل نہیں ملتے۔کہتے تھے کہ شوال بنا ہے شول سے جس
کے معنی ہیں مٹانا ، دور کرنا، زمین پر کھینچنا۔ آپ
ان کے اس خیال کی تردید فرمارہی ہیں۔۔۔
(حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کا)مقصد یہ
ہے کہ میرا تو نکاح بھی ماہ شوال میں ہوا اور رخصتی
بھی اور میں تمام ازواج مطہرات میں حضور کو زیادہ محبوبہ
تھی، اگر یہ نکاح اور رخصت مبارک نہ ہوتی تو میں
اتنی مقبول کیوں ہوتی؟علماء فرماتے ہیں کہ ماہ شوال
میں نکاح مستحب ہے۔‘‘(مراٰۃ المناجیح، جلد5، صفحہ 32، مطبوعہ گجرات، ملتقطا )
سیدی اعلیٰ حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:’’نکاح کسی مہینے میں
منع نہیں۔“(فتاوی رضویہ ،جلد11، صفحہ265، مطبوعہ رضافاؤنڈیشن ، لاهور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا محرم میں نکاح جائز ہے؟
بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح کے احکام؟
پانچ سال کی بچی کو دودھ پلایا تھا کیا اس سےبیٹے کا نکاح ہوسکتا ہے؟
دوسگی بہنوں سے نکاح کرنے کا حکم ؟
زوجہ کی بھانجی سے دوسری شادی کرلی اب کیا حکم ہے؟
کیا چچازاد بہن کی بیٹی سے نکا ح جائز ہے؟
کیا ایک ساتھ تین شادیوں کا پروگرام کرسکتے ہیں؟
کیانکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے ؟