Kya Mehar Me Muqarrar Shuda Plot Muaf Karne Se Muaf Ho Jayega?

کیا مہر میں مقرر شدہ پلاٹ معاف کرنے سے معاف ہوجائے گا ؟

مجیب: مفتی ابو محمدعلی اصغر عطاری

فتوی نمبر: Gul-2311

تاریخ اجراء: 29 محرم الحرام1443  ھ/ 07 ستمبر 2021 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلہ کے بارےمیں کہ کچھ عرصہ قبل میرا نکاح ہوا اور میرے حق مہر میں مبلغ پانچ ہزار روپے اور  ایک متعین مقرر شدہ قطعہ زمین مبلغ چار مرلے  طے پائی۔ میں نے اپنے شوہر سے مبلغ پانچ ہزار روپے وصول کرلیے ہیں، زمین کی وصولی ابھی باقی ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ میں زمین نہ لوں اور اپنے شوہر کو معاف کر دوں۔ شرعی طور پر مجھے ایسا کرنے کی اجازت ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   حق مہر میں اگر معین زمین یاکوئی اور معین سامان طے کیا جائے، تو معاف کرنے سے وہ معاف نہیں ہوتا ہے۔لہذا آپ اپنے شوہر کو زمین معاف بھی کر دیتی ہیں، تو آپ کا حق باقی رہے گا ۔ البتہ اگر ایسی صورت حال ہو جائے کہ عورت کا حق مہر معاف کرنے کے بعد حق مہر میں طے کیا جانے والا سامان ، زمین وغیرہ تباہ و برباد ہو جائے، تو اب عورت اس کا مطالبہ نہیں کر سکتی۔

   زمین کو مہر بنانا درست ہے ۔ جیساکہ مہر کی اقسام اور ان کے احکام بیان کرتے ہوئے النتف فی الفتاوی میں ہے: ”والمھر المسمی ینصرف علی خمسۃ اوجہ: احدھا معلوم وھو المعین۔۔۔ فاما المعلوم فھو ان یتزوجھا ۔۔۔ علی شئی من العقار۔۔۔ ولیس لھا غیر المسمی ولیس للزوج ان یعطیھا غیر ذلک“ یعنی مہر مسمی کی پانچ اقسام ہیں: ان میں سے ایک یہ ہے کہ مہر مسمی متعین شے ہو۔۔۔ جیسے میاں بیوی کسی زمین کے بدلے نکاح کریں، تو ایسی صورت میں عورت کے لیے بیان کردہ مہر ہی ہوگا اور شوہر کو اس کے بدلے کوئی دوسری شے دینے کی اجازت نہیں ہوگی۔ (النتف فی الفتاوی، جلد1، صفحہ297،بیروت)

   تنویر الابصار مع درمختارمیں ہے: ”(وصح حطھا) لکلہ او بعضہ(عنہ) قبل او لا“ یعنی عورت کا اپنا سارا مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کر دینا درست ہے،شوہر قبول کرے یا نہ کرے۔ (تنویر الابصار مع الدرالمختار، جلد4، صفحہ240، مطبوعہ کوئٹہ)

   اس عبارت کے تحت ردالمحتار میں ہے: ”قیدہ فی البدائع بما اذا کان المھر دینا ای دراھم اودنانیر لان الحط فی الاعیان لایصح. بحر“ یعنی اس مسئلے کو بدائع میں مقید کیا گیا جب مہر درہم و دینا ر (کرنسی رقم وغیرہ) کی شکل میں ہو، کیونکہ عین چیز میں معافی درست نہیں۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار، جلد4، صفحہ240، مطبوعہ کوئٹہ)

   اسی کی مزید وضاحت کرتے ہوئے ردالمحتار میں ہے: ”ومعنی عدم صحتہ ان لھا ان تاخذہ منہ ما دام قائما فلو ھلک فی یدہ سقط المھرعنہ“ یعنی معافی صحیح نہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک وہ شے موجود ہو، عورت اس کو لے سکتی ہے۔ اگر وہ چیز ہلاک ہو جائے، تو اب مہر ساقط ہو جائے گا۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار ، جلد4، صفحہ240، مطبوعہ کوئٹہ)

   اگر آپ اپنے شوہر سے وہ زمین نہیں لینا چاہتیں ،تو اس کا ایک طریقہ یہ ہو سکتا ہے کہ آپ اپنے شوہر کو وہ زمین بیچ دیں اور اس کے بدلےکوئی اور چیز مثلا کچھ رقم،دینی کتاب، زیور،موبائل، یا کوئی مکان وغیرہ لے کر زمین سے دست بردار ہو جائیں اور یوں وہ زمین آپ کے شوہر کی ہو جائے گی اور آپ کا اس زمین پر کوئی مطالبہ نہ رہے گا۔

   مال کے بدلے میں مال لے کر صلح کرنے کے احکام بیان کرتے ہوئے النتف فی الفتاوی میں ہے: ”والصلح  علی اربعۃ اوجہ: وجھان جائزان ووجھان فاسدان فالجائزان ان یکون الصلح من معلوم علی معلوم وھو ان یدعی الرجل علی الرجل۔۔۔دارا او ارضا فیصالحہ فی ذلک علی شئی معلوم مثل عبد معین او دابۃ معینۃ او ثوب معین ونحوھا“ یعنی صلح کی چار صورتیں ہیں، دو جائز ہیں اوردو ناجائز ۔ جائز صورتوں میں سے ایک یہ ہے کہ معلوم چیز کے بدلے معلوم چیز پر صلح کی جائے ،جیسے ایک شخص دوسرے شخص پر مکان یا زمین کا دعوی کر دے اور کسی معلوم شے پر صلح کر لے جیسے معین غلام یا معین جانور یا معین کپڑا وغیرہ۔ (النتف فی الفتاوی، جلد1، صفحہ505، بیروت)

   مزید احکام بیان کرتے ہوئے النتف فی الفتاوی میں ہے: ”فاما فی العقار فاذا ادعی رجل علی رجل عقارا فیجوز ان یصالحہ منہ علی عشرین شیئا اذا کانت قائمۃ فی یدہ“ یعنی اگر دعوی زمین کا ہو، تو بیس اشیاء پر صلح کرنا ،جائز ہے، بشرطیکہ زمین موجود ہو۔(النتف فی الفتاوی، جلد1، صفحہ508، بیروت)

   ان بیس اشیاء میں دوسرا گھر، نقد رقم،ادھار رقم، مکیلی، موزونی اشیاءوغیرہ شامل ہیں۔ ان کی تفصیل النتف فی الفتاوی میں موجود ہے۔

   اگر مدعی علیہ کے اقرار کے بعد مال کے بدلے مال پر صلح ہو، تو اس کے احکام بیان کرتے ہوئے تنویر الابصار مع درمختار میں ہے: ”(کبیع ان وقع عن مال بمال) وحینئذ( فتجری فیہ)احکام البیع“ یعنی ایسی صلح جو مال کے بدلے مال پر ہو، وہ بیع کے حکم میں ہوتی ہے۔ اس صورت میں اس پر بیع کے احکام جاری ہوتے ہیں۔ (تنویر الابصار مع الدرالمختار، جلد8، صفحہ468،مطبوعہ کوئٹہ)

   صلح کی اقسام اور ان کے احکام بیان کرتے ہوئے بہار شریعت میں ہے: ”اقرار کے بعد صلح ، اس کی چند صورتیں ہیں:اگر مال کا دعوی تھا اور مال پر صلح ہوئی، تو یہ صلح بیع کے حکم میں ہے۔“ (بھار شریعت، جلد2،حصہ 13، صفحہ1135، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم