مجیب:مفتی محمدقاسم عطاری
فتوی نمبر:Fsd-8130
تاریخ اجراء:15ذیقعدۃ الحرام1443ھ/15جولائی2022ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے
ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے
میں کہ دُرود شریف کو حق مہر مقرر کیا جاسکتا ہے ، زید کا
کہناہے کہ دُرود ِپاک وغیرہ کسی غیرِ مال چیز کوبھی
حق مہر مقرر کیا جا سکتا ہے ،کیونکہ
حدیث پاک سے ثابت ہے کہ حضرت آدم علیہ
السلام نے حضرت حواء رضی اللہ عنہا
کے مہر میں دُرود شریف پڑھا تھا،اِسی طرح ایک
صحابیہ کا مہر تعلیمِ
قرآن رکھا گیا تھا ،اس سے
بھی ثابت ہوتاہے کہ جو چیز مال نہ ہو اسے مہر مقرر کیا جا سکتا
ہے ، شرعی رہنمائی فرمائیےان روایات کے مطابق کیادُرود
پاک کو مہر مقرر کیا جاسکتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ
الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
نکاح میں دُرود
پاک کو عورت کا حق مہر مقرر نہیں کیا جاسکتا، اگر کسی نے
کر دیا ، تب بھی مہرِ مثل لازم ہو گا ،مہر ِمثل سے مراد عورت کے والد کی طرف سےخاندان کی اُس جیسی عورتوں کا جو مہر مقرر ہوا ، مثلاً: اُس کی بہن، پھوپی، چچا کی بیٹی وغیرہا
کا مہر ، اس عورت
کے ليے مہرِ مثل ہے۔
مسئلہ کی تفصیل:نکاح کے باب میں ایک اہم چیز ” مہر “ہے، شرعاً ” مہر “ اُس مال کو کہا جاتا
ہے،جو عورت مرد سے نکاح کے عوض حاصل کرنے کی مستحق ہوتی ہے ،شریعت ِمطہرہ نے مہر کو عورت کا ایسا
اہم حق قرار دیا ہے کہ اگر
بوقتِ نکاح اِس کا ذکر نہ بھی
کیا جائے ، تب بھی شوہر پر عورت کومہر دینا لازم ہوتا ہے،اِس مہرکا مالِ متقوّم یعنی ایسا مال ہونا ضروری ہے کہ جس کی
کوئی قیمت ہو ۔ مہر وہی چیز بن سکتی ہے جومال ہو
، اس لیے
نیکی کے کاموں ،مثلاً: تعلیمِ قرآن ،
تلاوت و نماز یا دُرود پاک وغیرہا کو مہر مقرر کرنا دُرست نہیں کہ یہ مال نہیں اور جو چیز مال نہ ہو ، وہ
مہر بھی نہیں بن
سکتی،مزید یہ
کہ مرد پر مہر کی صورت میں مال
لازم کرنے میں شریعت ِ مطہرہ نے بہت
سی حکمتیں پوشیدہ رکھی ہیں
، اگر مہرسے مال کو ہی ختم کر دیا جائے ، تو مہر لازم کرنے کے مقاصد ہی
فوت ہو جائیں گے ، اس لیے بھی مہر میں مال ہی دینا لازم ہے ، جیساکہ علامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نےاس پر تفصیلی کلام کیا ہے ۔
مہر میں مال ہونا ضروری
ہونے کے متعلق آیات ِ قرآنیہ :
(1)اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے :﴿ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ
مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ
مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ
مِنْهُنَّ فَاٰ تُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةً
﴾ترجمہ کنز
العرفان:’’اور ان (محرمات)عورتوں
کے علاوہ سب تمہیں حلال ہیں کہ تم انہیں اپنے مالوں کے
ذریعے نکاح کرنے کو تلاش کرو،
نہ کہ زنا کرنے کے لیے،توان میں سے جن عورتوں سے نکاح
کرناچاہو، ان کے مقررہ مہر انہیں دے دو۔( پارہ 5، سورۃ
النساء ، آیت 24)
مذکورہ بالاآیتِ مبارکہ کے اِس جزء ﴿ بِاَمْوَالِكُمْ﴾ کے تحت امام ابو البرکات
عبد اللہ بن احمد نَسَفِی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:710ھ/1310ء) لکھتے ہیں:”فيه دليل على…أنه يجب وإن لم يسم وأن غير المال لا يصلح مهرا
“ترجمہ : آیت ِ مبارکہ میں اس بات پر دلیل ہےکہ
نکاح میں مہر اگرچہ ذکر نہ بھی
کیا جائے ، تب بھی لازم ہی ہے اور اس بات پر بھی دلیل
ہےکہ جو چیز مال نہیں ، وہ مہر بننے کے قابل نہیں۔ (التفسیر
النسفی، سورۃ النساء ، تحت الایۃ 24، جلد1، صفحہ348، مطبوعہ لاھور)
اِسی طرح امام ابو بکر
احمد بن علی جَصَّاص
رازی حنفی
رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:370ھ/ 980ء) نے بیان
کیا۔ (احکام القرآن للجصاص،باب المھور، جلد2، صفحہ 199،مطبوعہ کراچی )
اورصراط الجنان فی تفسیر
القرآن میں ہے :” مہر کا مال ہونا ضروری ہے اور جو چیز مال نہیں ،وہ مہر نہیں بن سکتی، مثلا :ًمہر یہ ٹھہرا کہ شوہر عورت کو قرآنِ مجید یا علمِ دین پڑھا دے گا، تواس صورت میں
مہرِ مثل واجب ہو گا۔ “(صراط الجنان
،جلد2،صفحہ 175،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ
، کراچی )
(2) یونہی
اِرشاد ِباری تعالیٰ
ہے :
﴿ وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ ھَنِیْٓئًامَّرِیْٓئًا﴾ترجمۂ کنز العرفان : ’’اور
عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دو ، پھر اگر وہ
خوش دلی سے مہر میں سے تمہیں
کچھ دے دیں
،تو اسے پاکیزہ، خوشگوار (سمجھ کر)
کھاؤ۔‘‘( القرآن
الکریم ، پارہ
4، سورۃ النساء ، الایۃ
4)
یہ آیتِ مبارکہ بھی اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ مہرکا
مال ہونا ضروری ہے،چنانچہ اس کے تحت امام ابو بکر جَصَّاصرَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں:”ویدل علی ان المھر حکمہ ان یکون مالا قولہ تعالیٰ : ﴿وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً ۔الخ ﴾ وذالک لان قولہ تعالیٰ : ﴿وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً﴾ امر یقتضی ظاھرہ الایجاب ودل بفحواہ علی ان
المھر ینبغی ان یکون مالا من وجھین : احدھما : قولہ تعالیٰ : ﴿وَاٰتُوا﴾ معناہ
اعطوا والاعطاء انما یکون
فی الاعیان دون المنافع ، اذ المنافع لایتاتی فیھا
الاعطاء علی الحقیقۃ والثانی : قولہ تعالی: ﴿فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ ھَنِیْٓئًامَّرِیْٓئًا﴾ وذالک لایکون فی المنافع وانما ھو
فی الماکول او فیما
یمکن صرفہ بعد الاعطاء
الی الماکول فدلت ھذہ الایۃ علی ان المنافع لایکون
مھراً “ترجمہ : اور مہر کا حکم یہ ہےکہ
وہ مال ہو ، اس بات پر یہ آیتِ
قرآنی ﴿ وَاٰتُوا
النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً ۔الخ ﴾دلالت کرتی ہے،
کیونکہ آیت کا پہلا جزء ﴿وَاٰتُوا النِّسَآءَ صَدُقٰتِهِنَّ نِحْلَةً﴾ امر ہے جس کا ظاہر
ایجاب کا تقاضہ کرتا
ہے اور یہ اپنے مفہوم
کے لحاظ سے اس بات پر دالّ ہے کہ مہر مال ہی
ہوناچاہیے ،
اس کی دو وجہیں
ہیں ، ایک یہ کہ اللہ تعالیٰ
کا فرمان : ﴿وَاٰتُوا﴾ اعطوا کے معنی میں ہے اور اِعطا ء اَعیان یعنی چیزوں میں ہوتی ہے ، فقط منافع میں نہیں،کیونکہ منافع میں
حقیقی طور پر اعطاء نہیں پائی جاتی ۔اور دوسری وجہ آیت کا یہ
جزء ہے : ﴿فَاِنْ طِبْنَ لَكُمْ عَنْ شَیْءٍ مِّنْهُ نَفْسًا فَكُلُوْهُ ھَنِیْٓئًامَّرِیْٓئًا﴾(کیونکہ مہر میں سے کچھ
مرد کو واپس کرنااور اس کا اسے
کھانا ) یہ فقط منافع میں نہیں ہو سکتا ، بلکہ
یہ تو صرف کھائی
جانے والی چیزوں یاجن چیزوں کو دے کر
کھائی جانے والی چیزوں کا لینا ممکن ہو ، اُنہی میں ہو سکتا
ہے ۔(احکام القرآن للجصاص،باب
المھور، صفحہ 203،مطبوعہ کراچی )
(3)قرآن مجید کی آیت مبارکہ ہے: ﴿وَ اِنْ
طَلَّقْتُمُوْهُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْهُنَّ وَ قَدْ فَرَضْتُمْ لَهُنَّ فَرِیْضَةً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ﴾ترجمہ کنز العرفان : ’’اور اگر تم عورتوں کو
انہیں چھونے سے پہلے طلاق دیدو
اور تم ان کے لیے کچھ مہر بھی مقرر کرچکے ہو، تو جتنا
تم نے مقرر کیا تھا، اس کا آدھا
واجب ہے ۔( القرآن الکریم ، پارہ
2، سورۃ البقرہ، الایۃ 237)
بدائع الصنائع ، محیطِ
برہانی اور عامۂ
کتب فقہ میں
ہے،واللفظ للاول:”(ولنا) قوله تعالى: ﴿ وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ﴾شرط سبحانه وتعالى أن يكون المهر مالا وقوله
تعالى ﴿فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ﴾ (البقرة: 237)أمر بتنصيف المفروض في الطلاق قبل الدخول فيقتضي كون
المفروض محتملا للتنصيف وهو المال “ترجمہ
:مہر کے مال ہونے کے متعلق ہماری دلیل اللہ تعالیٰ
کا یہ فرمان ہے:(اور ان عورتوں کے علاوہ سب تمہیں
حلال ہیں کہ تم انہیں اپنے مالوں کے ذریعے
نکاح کرنے کو تلاش کرو۔) اس آیت میں اللہ سبحانہ و تعالیٰ
نے مہر کا مال ہونا شرط بیان فرمایا ۔ اور یہ
فرمانِ باری تعالیٰ
بھی دلیل ہے : ﴿فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ ﴾ اس لیے
کہ اس آیت مبارکہ میں ہَم بستری سے پہلے طلاق دینے کی صورت میں بیان کیے گئے مہر کا نصف لازم ہونا بیان کیا گیا ہے ، تو یہ آیت اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ جو مہر مقرر کیا جائے وہ ایسا ہونا
چاہیے جس
میں تنصیف
ہو سکتی ہو اور وہ مال ہے
،(لہٰذا ثابت ہوا مہر کا مال ہونا ضروری
ہے )۔(بدا ئع الصنائع، کتاب النکاح ، جلد3،
صفحہ491،مطبوعہ کوئٹہ)
احادیث مبارکہ :
(1) مصنف ابن ابی شیبہ ، سنن كبری للبیہقی، کنز العمال اور سنن دارقطنی میں ہے، واللفظ للآخر:’’ عن جابر أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال:لا
صداق دون عشرة دراهم‘‘ترجمہ
:حضرت سیدنا جابر رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا
: مہر دس درہم سے کم نہیں ۔(سنن دار قطنی ، جلد 4، صفحہ 358، مطبوعہ مؤسسة الرسالہ، بيروت)
(2)نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کے اپنے عمل مبارک سے بھی یہی
ثابت ہے کہ مہر مال ہی ہوسکتا ہے،چنانچہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ نے اپنی تمام
ازواجِ مطہرات کے مہر میں مال ہی دیا ،جیساکہ صحیح مسلم ،
سنن ابو داؤد ، سنن نسائی،
سنن ابن ماجہ وغیرہا کتب احادیث میں ہے، واللفظ للاول : عن أبي
سلمة بن عبد الرحمن أنه قال: سألت عائشة زوج النبي صلى اللہ عليه وسلم:كم كان صداق رسول اللہ
صلى اللہ عليه وسلم؟ قالت: كان صداقه لأزواجه ثنتي عشرة أوقية ونشا قالت: أتدري ما
النش؟ قال: قلت: نصف أوقية،فتلك خمس مائة درهم فهذا صداق
رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم لأزواجه‘‘ ترجمہ : حضرت ابو سلمہ بن عبد الرحمن رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ بیان کرتے ہیں
کہ میں نے حضرت عائشہ صدیقہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہَا سے پوچھا کہ نبی
کریم صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہر کتنا تھا ، فرمایا
آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ کا مہر اپنی بیویوں کے متعلق بارہ اوقیہ اور نَش تھا ،بولیں کیا تم جانتے ہو کہ نَش کیا
ہے؟ میں نے کہا : نہیں ! تو آپ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہَا نے فرمایا : آدھا اوقیہ،تو یہ پانچ سو درہم ہوئے ، یہ نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کا اپنی ازواج مطہرات رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْھُنَّ کے لیے مہر تھا۔ (الصحیح لمسلم ،کتاب النکاح،باب
الصداق ،جلد1، صفحه 458،مطبوعه کراچی )
جزئیاتِ فقہ:
مہر
کا مال ہونا ضروری ہے ، یہ بات خود مہر کی تعریف سے بھی واضح ہوتی ہے ، جیساکہ نہر الفائق ، رد
المحتار اور عامۂ کتب فقہ میں ہے،
واللفظ للاول :” اسم للمال الذي يجب في عقد النكاح على
الزوج في مقابلة البضع إما بالتسمية أو بالعقد “ترجمہ
: مہر اس مال کا نام ہے، جو
عقدِ نکاح میں شوہر پر ملکِ بضع (حق زوجیت ملنے)کی وجہ سے واجب ہوتا ہے
، یا تو صراحتاً ذکر کرنے سے یا
عقدِ نکاح سے ہی۔(النهر
الفائق شرح كنز الدقائق، کتاب النکاح
،باب المھر ،جلد 2، صفحہ 229
، مطبوعہ دار الكتب العلمي،بیروت)
اور
طاعت یعنی نیکی کے کاموں ،مثلاً: تعلیمِ قرآن ،
تلاوت و نماز یا دُرود پاک وغیرہا کو مہر مقرر کرنا دُرست نہیں کہ یہ مال نہیں اور ایسی
صورت میں مہر ِمثل لازم ہو
گا، چنانچہ ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِاور علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی
رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1252ھ/1836ء) لکھتے ہیں:”يجب مهر المثل فيما لو تزوجها على أن يعلمها القرآن أو
نحوه من الطاعات لأن المسمى ليس بمال “ترجمہ
: اگر نکاح اس طور پر کیا کہ
تعلیم قرآن یا کوئی اور نیکی کا کام (مثلاًدُرود
پاک ) مہر ہو گا، تو ایسی صورت میں مہر مثل
لازم ہو گا ، کیونکہ جو چیز مہر کے لیے ذکر کی
گئی وہ مال نہیں ۔(ردالمحتار مع الدرالمختار، کتاب النکاح،باب المھر ، جلد4، صفحہ229، مطبوعہ کوئٹہ)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی
رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ (سالِ
وفات:1367ھ/1947ء) لکھتے ہیں:”جو چیز مالِ متقوم نہیں وہ مَہرنہیں ہو سکتی اور مہر مثل واجب ہوگا، مثلاً: مہر یہ ٹھہرا کہ آزاد شوہر عورت کی سال بھر تک خدمت کرےگا یا
یہ کہ اسے قرآن مجید یا علمِ دین پڑھا دے گا
یا حج و عمرہ کرا دے گا
یا مسلمان مرد کا نکاح مسلمان عورت سے ہوا اور مہر میں خون یا شراب یا خنزیر کا ذکر آیا یا
یہ کہ شوہر اپنی پہلی بی بی کو طلاق دے دے، تو ان سب صورتوں میں مہرِ مثل واجب ہوگا۔
“(بھارِ شریعت ، مھر کا بیان ،جلد2،حصہ7، صفحہ65،مطبوعہ
مکتبۃ المدینہ،کراچی)
مہر ِمثل کی وضاحت کرتے ہوئے صدر الشریعہ عَلَیْہِ الرَّحْمَۃ لکھتے ہیں:”عورت کے خاندان کی اُس جیسی عورت کا جو مہر ہو ،وہ اُس کے
لیے مہر مثل ہے ،
مثلاً :اس کی بہن ، پھوپھی
، چچا کی بیٹی وغیرہا کا مہر ۔ “(بھارِ شریعت
،جلد2،حصہ7، صفحہ71،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)
احاديث
كا جواب :
جہاں
تک سوال میں
ذکر کی گئی احادیث کا تعلق ہے، توان کا جواب درج ذیل ہے۔
(1) حضرت
حواء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا کے حق مہر میں حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کے دُرود پاک پڑھنے کی روایت کو ثابت مان بھی لیا جائے ، تب بھی اسے حجت بنانا درست نہیں، جس
کی چند وجو ہات یہ ہیں:
(١) یہ روايت
اُس درجہ کی نہیں کہ اس سے کسی حکمِ شرعی کا استنباط کیا جا سکے،کیونکہ
کسی حدیث سے حکم شرعی
ثابت ہونے کےلیے اس کا خاص درجے کی
(کم از کم حسن لغیرہ)ہونا ضروری ہے، جس سے احکام ثابت ہوتے ہیں اور یہ روایت اس درجہ کی نہیں،لہٰذا
اِس روایت سےدُرودپاک کو مہر بنانے کا حکم
ثابت نہیں ہو سکتا۔(٢) یہ روایت سابقہ شریعتوں کے متعلق ہے اور سابقہ شریعتوں
کی ایسی روایات جو ہماری شریعت کے ثابت شدہ احکام کے خلاف ہوں، وہ قابلِ عمل نہیں ہوتیں،لہٰذا
دُرود پاک کو مہر مقرر کرنے کے متعلق اس روایت کو دلیل نہیں بنایا جا سکتا۔
(2) جہاں تک اُس روایت کا
تعلق ہے جس میں ذکر ہے کہ ایک صحابیہ کا مہر تعلیمِ قرآن رکھا گیا ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اسے
بھی دلیل نہیں بنایا جا سکتا ، کیونکہ وہ روایت خود محتمل ہے (جیساکہ تفصیل ذیل میں آ رہی ہے )اورجو روایت خود
محتمل ہو ،اس پر قیاس کر کے
کسی دوسرے حکم کا اِثبات نہیں کیا جاسکتا۔
تفصیل یہ ہے :روایت کا پسِ
منظر:نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی خدمت میں ایک عورت نے حاضر ہو کر عرض کی،
میں نے اپنی جان آپ صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کو ہبہ کر دی ،پھر وہ ٹھہری رہی ، تو ایک شخص نے عرض کی ، اگر حضور کو ضرورت نہ
ہو ، تو اس کا نکاح مجھ سے کر دیجیے ، تو نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : تمہارے پاس مہر دینے کو کچھ ہے
؟ انہوں نے عرض کی ،
میرے پاس اس تہبند کے سوا کچھ
نہیں ، فرمایا: اگر تم اپنا تہبند
اسے دے دو گے ،تو تم بغیر تہبند کے رہ جاؤ
گے، لہٰذا کوئی اور چیز تلاش کرو ،تو انہوں نے عرض کی
! میرے پاس کچھ نہیں ہے
، ارشاد فرمایا: مزید
تلاش کرو ، اگرچہ لوہے کی ایک
انگوٹھی ہی ہو ، انہوں نے
تلاش کیا،
مگر کچھ نہ ملا ، تو رسول پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا : کیا تمہیں قرآن یاد ہے ؟ عرض کی ،
جی ہاں ! فلاں فلاں سورت ياد ہے اور
ان کے نام بیان کیے ،تو نبی پاک صَلَّی
اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے ارشاد فرمایا : ہم نے اِس عورت کا نکاح تمہارے ساتھ
اس قرآن کے سبب کردیا ، جو تمہیں یاد ہے۔
حدیثِ پاک کے
الفاظ یہ ہیں:’’عن سهل بن سعد قال:جاءت امرأة إلى رسول
اللہ صلى اللہ عليه وسلم فقالت: إني وهبت
من نفسي، فقامت طويلا، فقال رجل: زوجنيها إن لم تكن لك
بها حاجة، قال: هل عندك من شيء تصدقها؟ قال: ما عندي إلا إزاري، فقال:إن أعطيتها إياه جلست لا إزار لك، فالتمس شيئا فقال: ما
أجد شيئافقال: التمس ولو خاتما من حديد فلم يجد، فقال:
أمعك من القرآن شيء؟ قال: نعم، سورة كذا وسورة كذا، لسور سماها، فقال: زوجناكها بما معك من القرآن‘‘ مفہوم اوپر بیان ہو چکا ۔ (الصحیح للبخاری ، کتا ب النکاح
، باب السلطان ولی ، جلد 2 ، صفحہ 277، مطبوعہ لاھور )
علمائے کرام نے اس روایت
کے متعلق بہت سے جوابات بیان کیے ہیں ، جن کا خلاصہ یہ
ہے:
(١):حدیثِ پاک میں تعلیمِ قرآن کا ذکر ہی
نہیں ہے ، بلکہ قرآن کا ذکر
ہے اور اس بات پر سب ائمہ کا
اجماع ہے کہ قرآن کریم یا اس کی کسی سورت کو مہر نہیں بنایا جا سکتا ، لہٰذا حدیث پاک میں "بما معکمن
القرآن " میں
لفظ " ب
" سبب کے لیے ہے ، نہ کہ
عوض کے لیے اور معنی یہ ہے کہ
تمہارے سورتوں کو یاد کرنے
کی برکت و عظمت کی وجہ سے میں
نے تمہارا اس کے ساتھ نکاح
کر دیا ، اب سوال یہ ہے
کہ کیا ان کا نکاح بغیر
مہر کے ہوا ؟تو اس کا جواب یہ ہےکہ حدیث
میں صرف اس بات کا بیان ہے کہ
مہر ذکر نہیں کیا گیا،نہ یہ کہ مہر دیا ہی نہیں گیا ،لہٰذایا تو خود انہوں نے بعد میں مہر ادا کیا تھا یا نبی
پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے شفقت اور کرم نوازی فرماتے ہوئے خود ادا کر دیا تھا
، جیسا کہ رمضان میں روزہ کی حالت میں اپنی بیوی سے ہم بستری کرنے والے شخص کا کفارہ ادا فرمادیا تھا، لہٰذا اس بات کا کوئی ثبوت نہیں کہ یہ نکاح
بغیر مہر کے ہوا تھا۔
(٢)اور اگر تعلیم قرآن کو ہی مہر مان لیا جائے،تو یہ حدیثِ پاک خبر واحد ہے،جب کہ اس کے مقابلے
میں نصِ قرآنی
موجود ہے اور اُصول یہ
ہے کہ کتاب
اللہ کے مطلق پر عمل ممکن ہو ، تو خبر ِواحد کے ذریعے کتاب اللہ پر اضافہ جائز نہیں
، اس لیے تعلیمِ
قرآن کو مہر مقرر نہیں
کیا جاسکتا،لہٰذا
جب مقیس علیہ یعنی تعلیمِ قرآن کا مہر بنانا
درست نہیں ، تو اس پر قیاس کر کے
کسی اور عمل
، مثلاً: درودِ پاک کو مہر بنانا بدرجہ اولیٰ درست نہیں ہو گا ۔
(٣)
علمائے کرام نے ایک جواب یہ دیا کہ تعلیم ِقرآن کو مہر بنانے کی
اجازت صرف اُنہی صاحب کے
لیے تھی ، ان کے بعد کسی اور کو جائز نہیں اور بالعموم وہی حکم ہے
،جو قرآن وحدیث اور ائمۂ
فقہ و حدیث کی عمومی تصریحات سے ثابت ہے اور اُصول یہ ہےکہ جوحکم کسی
کی خصوصیت کے طور پر بیان
ہوا ہو ،اُس پر دیگر کوقیاس
کرتے ہوئے عمومی حکم نہیں دیا جاسکتا، جس کی کثیر نظائر کتب میں موجود ہیں۔
جزئیات ملاحظہ کیجیے :
(1)حضرت
آدم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ
وَ السَّلام کا حضرت حواء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْہَا کے مہر میں دُرود پاک پڑھنے کے
متعلق روایت اس درجہ کی نہیں کہ اس سے حکم
شرعی ثابت ہو سکے ، چنانچہ ثبوتِ احکام کے لیے کس درجہ کی روایت کا ہونا ضروری ہے ، اس کا بیان
کرتے ہوئے امامِ اہلِ سنّت رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتے ہیں :”دوسرا درجہ احکام کا ہے کہ
اُن کے لئے اگرچہ اُتنی قوّت درکار نہیں (جو عقائد کے لیے درکار
ہے) ، پھر بھی حدیث کا صحیح لذاتہ،
خواہ لغیرہ یا حسن لذاتہ یا کم سے کم
لغیرہ ہونا چاہیے، جمہور علماء یہاں ضعیف حدیث نہیں سنتے۔‘‘(فتاویٰ رضویہ، جلد5،صفحہ478،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)
(٢)اورسابقہ اُمتوں کے احکام پر عمل کرنے کے متعلق اُصول یہ ہے کہ وہ
شریعتِ محمدیہ
علی صاحبہا الصلاۃ
و السلام کے
احکام کے خلاف نہ ہوں، لہٰذا سابقہ شریعتوں کی ایسی روایات جو ہماری شریعت کے ثابت شدہ احکام کے خلاف ہوں، وہ قابلِ عمل نہیں ،چنانچہ اللہ تعالیٰ
قرآن کریم میں
ارشاد فرماتا ہے : ﴿ یُرِیْدُ اللّٰهُ لِیُبَیِّنَ
لَكُمْ وَ یَهْدِیَكُمْ سُنَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ یَتُوْبَ
عَلَیْكُمْ وَ اللّٰهُ عَلِیْمٌ
حَكِیْمٌ﴾ترجمہ کنز العرفان’’:اللہ چاہتا ہے کہ
اپنے احکام تمہارے لیے بیان کردے اور تمہیں تم سے پہلے لوگوں
کے طریقے بتادے اور تم پر اپنی رحمت سے رجوع فرمائے اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔ (القرآن الکریم ،
پارہ 5، سورۃ النساء
، الایۃ
26)
مذکورہ بالاآیتِ مبارکہ کے تحت صراط الجنان فی تفسیر
القرآن میں ہے:”اس
آیت سے یہ معلوم ہوا کہ گزشتہ انبیاء
عَلَیْہِمُ الصَّلٰوۃُ
وَالسَّلَام کے جو شرعی احکام قرآن یا حدیث میں تردید کے بغیر منقول ہوئے وہ ہمارے
لئے بھی لائق عمل ہیں اور جوممانعت کے ساتھ نقل ہوئے
ان پر ہمیں عمل جائز نہیں۔‘‘(صراط الجنان ،جلد2،صفحہ 178،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )
علمائے کرام نے ایک
جواب یہ دیا کہ یہ معاملہ
حضرت آدم علیہ السلام کے
ساتھ خاص تھا ، لہٰذا کسی اور کو ان پر قیاس
نہیں کر سکتے ،چنانچہ علامہ
شمسُ الدین محمد عرفہ دسوقی
رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ”حاشیۃ الدسوقی علی الشرح الکبیر“
میں لکھتے ہیں :” لا يقال المهر لا
بد أن يكون متمولا، لأن الذي زوج حواء لآدم هو المولى، وهو يفعل ما یشاء ترجمہ : یہ اعتراض نہ کیاجائے کہ مہر کا تو مال ہونا ضروری ہے ، (پھر حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ
وَ السَّلام کا مہر درود پاک کیسے ہوا؟)کیونکہ جس ذات نے حضرت آدم عَلَیْہِ الصَّلاۃُ وَ السَّلام کا حضرت حواء رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہَا سے نکاح کروایا وہ مولیٰ تعالیٰ ہے اور وہ جیسے چاہے
معاملہ فرمائے۔ (حاشية الدسوقي علي الشرح الكبير ،
جلد 4 ، صفحہ 496 ، مطبوعہ دار الفکر )
دوسری روایت کے جوابات کے جزئیات :
(١)شارِح بخاری،
علامہ بدرالدین عینی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ نے تعلیم قرآن کے متعلق ذکر کی
گئی روایت کے مختلف طُرق کے الفاظ ذکر کر کے
سب کے جوابات بیان کیے ،جس کا ماحاصل و خلاصہ آخری بات میں بیان کر دیا
، چنانچہ عبارت یہ ہے :”وأجابوا عن قوله: قد زوّجناكها بما معك من القرآن،أنه إن حمل على ظاهره يكون تزويجها على السورة لا على تعليمها،فالسورة من القرآن لا تكون مهرا بالاجماع،
فحينئذ يكون المعني:زوجتكها بسبب ما معك من القرآن
وبحرمته وببركته، فتكون الباء للسببية…وهذا لا ينافي تسمية المال…ويكون ذلك المهر
مسكوتا عنه إما لأنه صلى اللہ عليه وسلم قد أصدق عنه كما كفّر عن الواطىء في رمضان إذ لم يكن عنده شيء…كل ذلك رفقا بأمته ورحمة
لهم، أو يكون أبقى الصداق في ذمته وأنكحها نكاح تفويض،حتى
يتفق له صداق، أو حتى يكسب بما معه من القرآن صداقا، فعلى جميع التقدير لم يكن
فيه حجة على جواز النكاح بغير صداق من المال “ترجمہ
:علمائے کرام نے اس فرمان(قد زوجناكها بما
معك من القرآن ) کا جواب یہ بیان کیا کہ اگر
اس کو ظاہر پر محمول کریں ،تو یہ قرآن کی ایک سورت کے بدلے نکاح کروانا
ہو گا ، نہ
کہ تعلیمِ قرآن پر اور قرآن کی سورت بالاجماع مہر نہیں بن سکتی ، لہٰذا حدیث پاک کا معنی یہ
ہوگاکہ میں نے قرآن کی حرمت و برکت کے سبب تمہارا اس عورت کے ساتھ نکاح
کر دیا ، لہٰذا یہ (ب)سببیہ ہو گی … اور یہ بات
مہر میں مال کا ذکر کرنے کے
منافی بھی نہیں …اور اگر یہ کہا جائے
کہ مہر کو ذکر نہیں کیاگیا ، تو اس کا
جواب یہ ہے کہ یا تو اس لیے کہ نبی
پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ
وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ نے خود اس کا مہر ادا فرما دیا ، جیساکہ رمضان میں جماع
کرنے والے کا کفارہ خود ادا فرمایا … یہ سب نبی پاک صَلَّی اللہ تَعَالٰی
عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّمَ کی اُمّت پر نرمی اور کرم نوازی کے سبب ہے یا
پھر مراد یہ ہو گی کہ
مہر اسی شخص کے ذمہ پر باقی
رکھا گیا اور مہر اس
عورت کو سپرد کرنے کی شرط پر نکاح کر دیا ، یہاں تک کے دونوں
میں مہر کے متعلق
اتفاق ہو گیا یا مراد یہ ہے کہ جو قرآن تمہیں
یاد ہے اس کے ذریعے مہر کما کر ادا کر
دینا، لہٰذا
ہر صورت پر ہی حدیث میں اس بات پر کوئی دلیل نہیں کہ یہ نکاح
بغیرمال کے ہواتھا ۔ (عمدۃ
القاری، کتاب الوکالۃ ،
جلد12، صفحہ201، مطبوعہ دار الکتب
العلمیہ ، بیروت)
اِسی تفصیل کے ساتھ امام ابن الملك كرمانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ اور علامہ علی قاری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جوابات بیان کیے ،مزید علامہ علی قاری رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِلکھتے ہیں:”(فقال: قد زوجتك بما معك من القرآن) قال الأشرف: الباء للسببية عند
الحنفية وليست للبدلية والمقابلة أي زوجتكها بسبب ما
معك من القرآن والمعنى أن ما معك من القرآن سبب الاجتماع بينكما كما في تزوج
أبي طلحة أم سليم على إسلامه، فان الاسلام صار سببا لاتصاله وحينئذ يكون
المهر دينا، (وفي رواية قال انطلق فقد زوجتك) أي: بما معك من القرآن (فعلمها من القرآن) ما معك وهذا
أمر استحباب ولا دلالة فيه على أن التعليم مهر “ترجمہ : اس فرمان ( قد زوجتك بما معك من القرآن) کے متعلق
كِبار علمائےکرام فرماتے ہیں : احناف کے نزدیک اس میں (ب)سبب کے لیے ہے
، عوض اور مقابلہ
کےلیے نہیں یعنی تمہیں قرآن
یاد ہونے کے سبب میں نے تمہارا نکاح اس عورت سے کر دیا
، یعنی تمہارا
قرآن یاد کرنا تم دونوں کے اکھٹے
ہونے کا سبب بن گیا ، جیساکہ حضرت
ابو طلحہ رَضِیَ اللہ تَعَالٰی عَنْہ کے اسلام لانےکی شرط پران کا نکاح حضرت اُمِّ سُلیم رَضِیَ اللہ تَعَالٰی
عَنْھا کے ساتھ ہوا ، کیونکہ
ان کا اسلام
لانا ان کے نکاح کا سبب بنا اور(چونکہ قبولِ اسلام کو مہر مقررنہیں کیا جا سکتا،
اس لیے ) اُس وقت مہر اُن کے ذِمّہ پر دَیْن
تھا ، ایک روایت میں بیان کیا گیا : جاؤ میں نے تمہارا
نکاح کر دیا
اس کے سبب جو قرآن تمہیں
یاد ہے ، تو اب اس کو قرآن سِکھاؤ ، تواس کا جواب یہ ہے کہ تعلیم
قرآن کا حکم صرف استحبابی تھا اور اس میں بھی ایسی کوئی دلالت نہیں ہے کہ
تعلیمِ قرآن کو مہر
مقرر کیا گیا تھا۔(مرقاة المفاتيح، کتاب النکاح ، باب الصداق ، جلد 6، صفحہ
328، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ ، بیروت )
(٢)تعلیم
قرآن ہی مراد ہو، تو یہ روایت خبر واحد ہے ،جس کی وجہ سے نص قرآن ترک نہیں کی جا سکتی
، چنانچہ ملک العلماءعلامہ کاسانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ
وفات:587ھ/1191ء) لکھتے ہیں:”
وأما الحديث فهو في حد الآحاد ولا يترك نص الكتاب بخبر الواحد مع
ما أن ظاهره متروك، لأن السورة من القرآن
لا تكون مهرا بالاجماع، وليس فيه ذكر تعليم القرآن ولا
ما يدل عليه، ثم تأويلها زوجتكها بسبب ما معك من القرآن
وبحرمته وبركته لا أنه كان ذلك النكاح بغير تسمية مال “ترجمہ
: بہر حال حدیثِ پاک ، تو وہ خبر واحد ہے اور خبر واحد کی وجہ سے
نصِ قرآنی کو ترک نہیں کیا جاسکتا ، باوجود اس کے کہ اس روایت
کا ظاہر بھی
متروک ہے ، کیونکہ قرآن کی سورت بالاجماع مہر نہیں بن سکتی اور حدیث پاک میں تعلیمِ
قرآن کا ذکر نہیں اور نہ ہی اس مراد پر دلالت کرنے والی
کوئی بات حدیث میں موجود ہے، لہٰذا یہ حدیث مؤول ہے اور تاویل یہ ہے کہ
میں نے تمہارے قرآن یاد کرنے اور اس کی حرمت و برکت کی وجہ
سے تمہارا نکاح اس عورت سے کر دیا ، لہٰذا ایسا نہیں ہے کہ
یہ نکاح مہر میں مال بیان کیے بغیر ہی ہوگیا۔(بدا ئع الصنائع، کتاب النکاح ، جلد3، صفحہ491،مطبوعہ
کوئٹہ)
خبر ِواحد کے ذریعے کتاب اللہ پر زیادتی جائز نہیں ،
جیساکہ اُصول الشاشی
میں ہے:” أن المطلق من كتاب اللہ تعالى إذا أمكن
العمل بإطلاقه فالزيادة عليه بخبر الواحد والقياس لا يجوز “ترجمہ :جب کتاب اللہ کے مطلق پر عمل کرنا ،ممکن
ہو ، تو خبرِ واحداور قیاس کے ذریعے
اس پر زیادتی کرنا ،جائز نہیں ۔ (اُصول الشاشی ، صفحہ 15، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی)
(٣)تعلیمِ قرآن کو ہی مہر ماناجائے ، تو پھریہ صرف ان
صحابی کی
خصوصیت شمار ہو گی ، جیساکہ علامہ عینی رَحْمَۃُاللہ
تَعَالٰی عَلَیْہِ نے نقل کیا :”وإنما جاز لذلك الرجل خاصة “ ترجمہ : (علماء نے ایک جواب یہ دیا کہ ) تعلیم ِ
قرآن کو مہر
مقرر کرنا خاص اُسی
شخص کے لیےجائز تھا، (لہٰذا کسی اور کو ان پر قیاس
کرنا ،جائز نہیں)۔ (عمدۃ
القاری، کتاب الوکالۃ ،
باب وکالہ، جلد12، صفحہ201، مطبوعہ
دار الکتب العلمیہ ، بیروت)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ
تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا محرم میں نکاح جائز ہے؟
بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح کے احکام؟
پانچ سال کی بچی کو دودھ پلایا تھا کیا اس سےبیٹے کا نکاح ہوسکتا ہے؟
دوسگی بہنوں سے نکاح کرنے کا حکم ؟
زوجہ کی بھانجی سے دوسری شادی کرلی اب کیا حکم ہے؟
کیا چچازاد بہن کی بیٹی سے نکا ح جائز ہے؟
کیا ایک ساتھ تین شادیوں کا پروگرام کرسکتے ہیں؟
کیانکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے ؟