Jis Aurat Se Zina Kiya Phir Usi Aurat Se Nikah Karna

جس عورت سے زنا کیا پھر اسی عورت سے نکاح کرنا

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12632

تاریخ اجراء: 04جمادی الثانی 1444 ھ/28 دسمبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر کوئی لڑکا کسی لڑکی کے ساتھ پہلے زنا کرے  اور پھر اسی لڑکی سے اس کا نکاح ہوجائے ، تو کیا اس طرح ان کا نکاح ہوجائے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   زنا کرنااور کروانا،گناہ ،ناجائزوحرام اورجہنم کا مستحق بنانے والا،بے حیائی پر مشتمل کام ہے۔زنا کرنے والے مرد اور زنا کروانے والی عورت دونوں پر سچے دل سے اللہ پاک کی بارگاہ میں توبہ کرنا لازم ہے ، جہاں تک نکاح کا سوال ہے، تو اگرچہ ان دونوں نے شادی سے پہلے آپس میں زنا کیا ،لیکن اس کے بعد شرعی تقاضوں کے مطابق ان کا آپس میں نکاح ہوگیا،تو یہ نکاح جائز ہےاور نکاح ہوجانے کے بعدان دونوں کا آپس میں میاں بیوی کی طرح رہنا بھی شرعی طور پر حلال ہے، ماضی میں جو زنا ہوا، اس سے ان کے اس نکاح پر کوئی اثر نہیں ہوگا۔

   زنا کے متعلق رب عزوجل ارشاد فرماتا ہے:”وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤی اِنَّہٗ کَانَ فاحِشَۃً ؕ وَسَآءَ سَبِیۡلا “ ترجمہ کنز الایمان:اور بدکاری کے پاس نہ جاؤ،بے شک وہ بے حیائی ہےاور بہت ہی بری راہ۔(پارہ15،سورۃ بنی  اسرائیل، آیت 32)

   امام ابو بکر الجصاص رازی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”روی عن ابی بکر وعمر وابن عباس وابن مسعود وابن عمر ومجاھد وسلیمان بن یسار وسعید بن جبیر فی آخرین من التابعین :ان من زنی بامراۃ او زنی بھا غیرہ فجائز لہ ان یتزوجھا ۔۔۔۔۔فقھاء الامصار متفقون علی جواز النکاح وان الزنا لا یوجب تحریمھا علی الزوج ولا یوجب الفرقۃ بینھما“یعنی حضرت ابو بکر، حضرت عمر ، حضرت ابن عباس، حضرت ابن مسعود، حضرت ابنِ عمر ،حضرت مجاہد، حضرت سلیمان بن یسار اور حضرت سعید بن جبیر جو آخری تابعین میں سے ہیں رضی اللہ تعالیٰ عنہم اجمعین سے مروی ہے :جس نے کسی عورت سے زنا کیا یا کسی اور نے اس عورت سے زنا کیا، تو اس کے لئے اس زانیہ عورت سے شادی کرنا،  جائز ہے ۔۔۔۔فقہائے امصار اس بات پر متفق ہیں کہ زانیہ کا نکاح جائز ہے  اور زنا سے وہ عورت اپنے شوہر پر حرام نہ ہوگی اور ان دونوں کے مابین جدائی بھی واجب نہیں ہوگی۔ (احکام القرآن للجصاص، جلد3،صفحہ 346،مطبوعہ:بیروت)

   محیطِ برہانی وفتاوی ھندیہ میں ہے:”وفی مجموع النوازل:اذا تزوج امراۃ قد زنی بھا وظھر بھا حبل فالنکاح جائز عند الکل ولہ ان یطاھا عند الکل“یعنی کسی شخص نے ایسی عورت سے نکاح کیا، جس سے یہ خود  زنا کر چکا ہے اور اسی کی وجہ سے  عورت کا حمل  ظاہر ہوچکا ہے تو تمام فقہا کے نزدیک یہ نکاح جائز ہے اورتمام فقہا کے نزدیک   وہ شخص اس عورت سے جماع کر سکتا ہے ۔(فتاوی ھندیہ، جلد1،صفحہ 280،مطبوعہ:کوئٹہ)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”جس عورت کو زنا کا حمل ہے اس سے نکاح ہوسکتا ہے ، پھر اگر اسی کا وہ حمل ہے ، تو وطی بھی کرسکتا ہے“ (بھارِ شریعت، جلد2، صفحہ 34،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم