Islam Mein Love Marriage Ka Hukum

 

اسلام میں Love Marriage کا حکم

مجیب:مولانا اعظم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3265

تاریخ اجراء: 09جمادی الاولیٰ 1446ھ/12نومبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   Love Marriage کرنا گناہ یا حرام ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شریعت کے دائرے میں رہتے ہوئے پسند کی شادی کرنا منع نہیں ہے بلکہ دو محبت کرنے والوں کے لیے نکاح کو بہترین چیز قرار دیا گیا ہے لہذااگرکسی سے نکاح کا ارادہ ہو اوراس دوران  کسی قسم کی غیر شرعی حرکت کا ارتکاب نہ کیا جائے اور کسی جائز اورمہذب ذریعے سے نکاح کا پیغام بھیجا جائے ،جسے لڑکی اور اس کا ولی قبول کر لے تو بیشک ایسی پسند کی شادی  اسلام میں جائز ہے ۔

      البتہ! مروجہ Love Marriage  یعنی پسند کی شادی  جو  کئی گناہوں کا مجموعہ ہوتی ہے  مثلا  مردو عورت نکاح سے پہلے ایک دوسرے سے رابطے میں ہوتے ہیں ،بےتکلفی ،ملاقاتیں کرنا،فون پر باتیں کرنا، تنہائی میں جمع ہونا،ایک دوسرے کو چھونا  حتی کہ نکاح سے پہلے جسمانی تعلقات کا قائم ہوجانا،اگر والدین راضی  نہ ہوں تو ان کی مرضی کے خلاف  نکاح کرلینا ،وغیرہ یہ ایک شیطانی کام اور سرا سر گناہ ہےبلکہ اگر لڑکی نے اپنے ولی کی اجازت کے بغیر غیر کفو میں نکاح کیا تو  ہوگا ہی نہیں ۔اس طور پر ہونے والی محبت کی شادی کی اسلام میں  کوئی گنجائش نہیں ہے۔پسند کی شادی کے نام پر ہونے والی مذکورہ تمام خرافات کا ناجائز و حرام ہونا ،کسی مسلمان پر مخفی نہیں ہے ۔

   سنن ابن ماجہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” لم نر –( يُر) - للمتحابين مثل النكاح “ترجمہ:دو محبت کرنے والوں کے لیے ہم نے  نکاح جیسی کوئی چیز نہیں دیکھی یا نہ دیکھی  گئی۔(سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث 1847،ج 1،ص 593، دار إحياء الكتب العربية)

   غیر محرم اجنبیہ عورت کے ساتھ تنہائی اختیار کرنے کےمتعلق  نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ  وآلہ وسلم نے فرمایا:”ألا لا یخلون رجل بإمرأۃ إلا کان ثالثھما الشیطان“ترجمہ : خبردار !کوئی شخص کسی عورت سے خلوت نہیں کرتا، مگر ان میں تیسرا شیطان ہوتا ہے۔(سنن الترمذی،رقم الحدیث 2165،ج 4،ص 465،مطبوعہ مصر)

   بہارِ شریعت میں ہے” اجنبیہ عورت کے چہرہ اور ہتھیلی کو دیکھنا اگرچہ جائز ہے مگر چھونا جائز نہیں، اگرچہ شہوت کا اندیشہ نہ ہو کیونکہ نظر کے جواز کی وجہ ضرورت اور بلوائے عام ہے چھونے کی ضرورت نہیں، لہٰذا چھونا حرام ہے۔ (بہارِ شریعت، ج 03،حصہ 16، ص 446، مکتبۃ المدینہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم