مجیب:مولانا جمیل احمد غوری عطاری مدنی
فتوی نمبر:Web-1794
تاریخ اجراء:19ذوالحجۃ الحرام 1445ھ/26جون2024ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا نفاس کی حالت میں بیوی کے پچھلے مقام میں ہمبستری کرنے سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
حیض و نفاس کی حالت میں عورت کی ناف کے نیچے سے گھٹنے تک عورت کے جسم کا جتنا حصہ ہے اسے شوہر نہ اپنے ہاتھ سے چھو سکتا ہے نہ ہی اپنے جسم کے کسی دوسرے حصے سے۔ ہاں اگر درمیان میں کوئی ایسا کپڑا وغیرہ حائل موجود ہے کہ جس سے عورت کے جسم کی گرمی مرد کے جسم تک نہ پہنچے تو پھر چھونا، جائز ہے۔ناف سے اوپر اور گھٹنے سے نیچے چھونے یا کسی طرح کا نفع لینے میں کوئی حَرَج نہیں۔ یوہیں بوس وکنار بھی جائز ہے۔
نیز حیض و نفاس کی حالت میں شوہر کے لیے عورت کے جسم کے ان حصوں کو بغیر شہوت کے دیکھنا جائز ہے جبکہ شہوت کے ساتھ ان حصوں کو دیکھنا گناہ ہے۔
اسی طرح کسی بھی صورت میں عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرنا سخت حرام ہے اور اس پر حدیث میں لعنت کی گئی ہے اور جو اسے حلال جان کر کرے، تو علما نے اس کا کفر ہونا بیان فرمایا ہے ، لہٰذا اسے حلال سمجھ کر کرنے والے کو توبہ و تجدیدِ ایمان وتجدیدِ نکاح کا حکم دیا جائے گا ۔اور اگر حلال نہیں سمجھتا تھا، تو کفر نہیں مگر حرام پھر بھی ہے اور توبہ فرض ہے۔عورت راضی تھی اور بقدرِ قدرت اس نے نہیں روکا، تو وہ بھی گناہگار ہوئی۔
نیز معاذ اللہ اگر کسی نے حیض یا نفاس کی حالت میں بیوی سے ہمبستری کی اگرچہ جائز جگہ ہو تو بھی یہ حرام ہے اور ان پر توبہ و استغفار فرض ہے ۔اس گناہ کا کا مالی کفارہ واجب نہیں البتہ کچھ احادیث میں یہ فعل سرزد ہونے پر مالی کفارہ ادا کرنے کا بھی ارشاد ہوا ہے لہٰذا اس کفارے کو ادا کرنا مستحب ہے ۔
سنن ترمذی میں حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:” من أتى حائضا، أو امرأة في دبرها، أو كاهنا، فقد كفر بما أنزل على محمد“ یعنی جو حائضہ عورت سے جماع کرے یا عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرے یا کاہن کے پاس جائے،تو اس نےاس کا انکار کیا جومحمد مصطفے صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔(جامع ترمذی،جلد1،صفحہ242،رقم الحدیث:135، مطبوعہ: مصر)
مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ حدیث پاک کی شرح بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:” یعنی یہ تینوں شخص قرآن وحدیث کے منکرہوکر کافرہوگئے۔خیال رہے کہ یہاں سے شرعی کفر ہی مراد ہے اسلام کا مقابل۔ اوران سے وہ لو گ مراد ہیں جو عورت سے دبر(یعنی پچھلے مقام) میں یابحالتِ حیض صحبت کوجائزسمجھ کر صحبت کریں ۔“(مرآۃ المناجیح، جلد1،صفحہ308،مطبوعہ :مکتبہ اسلامیہ)
کفارے کے متعلق یہ احادیث سیدی اعلیٰ حضرت امام اہل سنت امام حمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ نےاپنے ایک فتوے میں بیان کی ہیں اور احادیث بیان کرنے کے بعد کفارے کے متعلق جو تفصیل ارشاد فرمائی ہے اس کا خلاصہ یہ ہے :
(1)اگر کسی نے جان بوجھ کرنہیں بلکہ نادانستہ حیض و نفاس کی حالت میں بیوی سے صحبت کر لی تو اگر حیض کے آخری ایام میں صحبت واقع ہوئی (یا دس دن سے کم آکر حیض ختم ہو چکا تھا لیکن نہ اس نے غسل کیا تھا اورنہ اس کے ذمہ ایک نماز فرض ہوئی تھی ) تو اس صورت میں دینا ر کا پانچواں حصہ صدقہ کرے۔اور اگر حیض کے ابتدائی دنوں میں ایسا معاملہ ہو تو اس سے دو گنا صدقہ کرے یعنی دینار کے دو پانچویں حصے۔
(2)اور اگر جان بوجھ کر ایسا کیا تو پھر اگر حیض کا آخر تھا تو آدھا دینار صدقہ کرے اور اگر حیض کا شروع تھا تو پورا ایک دینار صدقہ کرے۔(ماخوذ از فتاوی رضویہ،جلد4،صفحہ364،رضافاؤنڈیشن،لاہور)
اپنی استطاعت کے مطابق چاندی یا سونے کا حساب کرکےرقم بھی دی جا سکتی ہے۔
ضروری تنبیہہ:حیض کی حالت میں عورتوں سے ہم بستری کرنا حرام ہے۔ اور چونکہ یہ قرآن کی واضح آیت سے ثابت ہے لہٰذا ایسی حالت میں جماع جائز جاننا کفر ہے اور حرام سمجھ کر کر لیا تو سخت گنہگار ہوا اس پر توبہ فرض ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا محرم میں نکاح جائز ہے؟
بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح کے احکام؟
پانچ سال کی بچی کو دودھ پلایا تھا کیا اس سےبیٹے کا نکاح ہوسکتا ہے؟
دوسگی بہنوں سے نکاح کرنے کا حکم ؟
زوجہ کی بھانجی سے دوسری شادی کرلی اب کیا حکم ہے؟
کیا چچازاد بہن کی بیٹی سے نکا ح جائز ہے؟
کیا ایک ساتھ تین شادیوں کا پروگرام کرسکتے ہیں؟
کیانکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے ؟