مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر: FSD-9077
تاریخ اجراء:27 صفر المظفر 1446ھ /02 ستمبر 2024
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ جو شخص بولنے کی قدرت نہ رکھتا ہو، یعنی گونگا ہو، اُس کا نکاح کیسے ہو گا؟
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
گونگے شخص کے نکاح کے دو ممکنہ طریقے ہیں۔ اُن میں سے دوسرا طریقہ بہتر ہے۔
(1)جو گونگا اشاروں کی زبان جانتا ہو اور ایسے معروف ومعہود اشارے کرتا اور سمجھتا ہو کہ جو گونگوں میں رائج ہیں، تو اُس کے سامنے اشاروں کی زبان میں ایجاب کیا جائے گا اور وہ معروف اشارے سے اُس ایجاب کو قبول کر لے گا۔ اِسی قبول کے اشارے سے اُس کا نکاح منعقد ہو جائے گا۔
(2)اگر گونگا اشاروں کی زبان سے بھی واقِف ہو اور ساتھ لکھنا پڑھنا بھی جانتا ہو، تو اُس کے سامنے لکھ کر یا اشاروں سے ایجاب کر دیا جائے اور وہ تحریری صورت میں اُس ایجاب کو قبول کرے، یعنی کاغذ پر لکھ دے کہ ” میں فلاں بن فلاں ہوں اور اِس لڑکی فلانہ بنت فلاں کا نکاح قبول کرتا ہوں۔“ یوں تحریری انداز میں قبول کرنے سے نکاح منعقد ہو جائے گا اور اشاروں سے قبول کرنے کی بنسبت تحریراً قبول کرنا بہتر اور اچھا ہے۔
مندرجہ بالا مسئلہ فقہائے احناف کے مابین مختلف فیہا رہا ہے، لہٰذا براہِ راست جزئیات نقل کرنے سے پہلے روایاتِ مذہب ، اُن میں قولِ معتمد اور پھر اِس مسئلہ پر صریح جزئیہ نقل کیا جائے گا۔
امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے دو مختلف روایات:
امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ سے گونگے کے اشارے یا کتابت کے معتبر ہونے یا نہ ہونے کی دو روایتیں منقول ہیں۔
(1)یک قول کے مطابق اگر گونگا اشارے بھی کر سکتا ہو اور لکھنے پر بھی قادر ہو، تو دونوں میں سے جس ذریعے کو بھی اختیار کرے گا، وہ معتبر اور درست ہو گا، یعنی اگرچہ وہ لکھنے پر قادر ہو، لیکن اگر وہ لکھنے کے بجائے اشارے سے عقد کر لے، تو اشارہ بھی معتبر ٹھہرے گا اور اگر اشارے کی جگہ لکھ کر بات کر لے،تو یہ بھی درست ہو گا۔
”الھدایۃ“ میں”الجامع الصغیر“سے منقول ہے:”إذا كان الأخرس يكتب كتابا أو يومئ إيماء يعرف به فإنه يجوز نكاحه وطلاقه وعتاقه وبيعه وشراؤه“ترجمہ: جب گونگا لکھنے پر قادر ہو یا ایسے اشارے کر سکتا ہو کہ جو معروف ومعہود ہوں ،تو اُس کی کتابت یا اشارے، دونوں سے نکاح، طلاق، آزاد کرنا، بیچنا اور خریدنا سب جائز اور معتبر ہو گا۔(الھدایۃ مع حاشیۃ اللکھنوی، جلد 08، صفحہ 352، مطبوعۃ ادارۃ القرآن، کراتشی)
یہاں”یکتب“ اور”یومئ“ کے درمیان”اَوْ“ لکھا گیا اور حرفِ”اَوْ“ دو چیزوں کے درمیان اختیار کے لیے ہوتا ہے، چنانچہ قاضی امیر کاتِب اِتقانی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:758ھ/1356ء) نے لکھا:”کلمۃ”او“ لاحد الشئیین“ترجمہ:”اَوْ“ کا حرف دو میں سے کسی ایک چیز کےلیے ہوتا ہے۔(یعنی دونوں میں سے کوئی بھی قابلِ اختیار ہے۔)(غایۃ البیان شرح الھدایہ، جلد 17، صفحہ 754، مطبوعہ دار الضیاء، کویت)
(2) دوسرا قول یہ ہے کہ اگر گونگا لکھنا جانتا ہو، تو پھر اُس کے اشاروں کا کوئی اعتبار نہیں ہوگا، بلکہ لکھ کر ہی عقد کرنا ہو گا، مثلاً نکاح وطلاق وغیرہا، اور اگر لکھنا نہیں جانتا ،تو پھر اُس صورت میں اشارے قابلِ اعتبار ہوں گے۔
”تکملۃ فتح القدیر“میں بحوالہ”کتاب الاصل“ہے:”إن كان الأخرس لا يكتب وكانت له إشارة تعرف في نكاحه وطلاقه وشرائه وبيعه فهو جائز“اگر گونگا لکھنے پر قادر نہیں، البتہ ایسے اشارے جانتا ہے کہ جو نکاح، طلاق، بیچنے اور خریدنے کے متعلق معروف ہوں تو یہ سب امور اشارے سے جائز اور معتبر ٹھہریں گے۔(نتائج الافکار مع الھدایۃ، جلد 10، صفحہ 527، مطبوعہ مصر)
امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کے اِس قول میں اشارے کو اُسی صورت میں معتبر مانا گیا ہے، جبکہ گونگا کتابت پر قادر نہ ہو، یعنی جب لکھ سکتا ہو، تو پھر اشارہ معتبر نہیں ہو گا۔
دونوں روایات کے مطابق فقہاکے جزئیات:
امام محمد رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی دونوں طرح کی روایات کے مطابق فقہائے احناف نے جزئیات ترتیب دیے ہیں، چنانچہ قولِ اوَّل یعنی”الجامع الصغیر“کی روایت سے استدلال کرتے ہوئے صاحبِ ترجیح علامہ مَرْغِینانی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:593ھ/1196ء) نے لکھا:”دلت المسألة على أن الإشارة معتبرة وإن كان قادرا على الكتابة، بخلاف ما توهمه بعض أصحابنا رحمهم اللہ أنه لا تعتبر الإشارة مع القدرة على الكتابة“ ترجمہ:( الجامع الصغیر)کے مسئلے میں اس چیز پر دلالت موجود ہے کہ گونگے کا اشارہ بھی معتبر ہے، اگرچہ وہ لکھنے پر بھی قادر ہو۔ یہ مسئلہ ہمارے اُن بعض اصحاب کے خیال کے برخلاف ہے کہ جن کا کہنا یہ ہے کہ کتابت پر قدرت ہوتے ہوئے اشارہ قابلِ اعتبار نہیں ہوتا۔(الھدایۃ فی شرح بدایۃ المبتدی، جلد04، صفحہ 549، مطبوعہ دار احیاء التراث العربی، بیروت)
اورقولِ ثانی یعنی”کتاب الاصل“اور”کتاب الکافی“سے استدلال کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال :1252ھ/1836ء) نے لکھا:”في كافي الحاكم الشهيد ما نصه: فإن كان الأخرس لا يكتب وكان له إشارة تعرف في طلاقه ونكاحه وشرائه وبيعه فهو جائز، وإن كان لم يعرف ذلك منه أو شك فيه فهو باطل. اهـ. فقد رتب جواز الإشارة على عجزه عن الكتابة، فيفيد أنه إن كان يحسن الكتابة لا تجوز إشارته“ترجمہ:امام حاکم شہید رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی”الکافی“ میں ہے: اگر گونگا لکھنے پر قادر نہیں، البتہ ایسے اشارے جانتا ہے کہ جو نکاح، طلاق، بیچنے اور خریدنے کے متعلق معروف ہوں،تو یہ سب امور اشارے سے جائز اور معتبر ٹھہریں گے۔اگر وہ اشارے کے مدلول کو نہ جانتا ہو یا اُسے مدلول میں شک ہو، تو اُس کے تصرفات باطل ہیں۔(امام حاکم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عبارت مکمل ہوئی۔)تحقیق امام حاکم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اشارے کے جواز کو کتابت سے عاجز ہونے پر موقوف اور معلق رکھا ہے، لہٰذا اِس عبارت سے یہ مسئلہ مستفاد ہوا کہ اگر گونگا اچھے انداز میں کتابت جانتا ہو، تو اُس کا اشارہ کرنا، جائز نہیں۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 09،کتاب الطلاق، صفحہ 133 ، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
قولِ معتمد:
علامہ ابن نجیم مصری حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال: 970ھ/1562ء)، ابومحمد غانم بن غانم بغدادی حنفی (وِصال:1030ھ/1620ء) اور علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی کے بیٹے علامہ علاؤ الدین رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہم (وِصال:1306ھ/1889ء) نے بالترتیب اپنی کتب ”الاشباہ والنظائر“،”مجمع الضمانات“اور”تکملۃ ردالمحتار“ میں ”عدمِ اشتراطِ کتابت“ کو معتبر اور معتمد قرار دیا، یعنی اگر گونگا لکھنے پر قادر ہے، تو اِس کے باوجود بھی اگر معروف ومعہود اشارے سے ایجاب وقبول کرتا ہے، تو وہ معتبر اور جائز ہے۔
”الاشباہ والنظائر“ میں ہے:”كتابة الأخرس كإشارته واختلفوا في أن عدم القدرة على الكتابة شرط للعمل بالإشارة أو لا.والمعتمد لا۔۔۔ولا بد في إشارة الأخرس من أن تكون معهودة وإلا لا تعتبر“ترجمہ:گونگے کا لکھنا، اُس کے اشارے کی مانند ہی ہے۔ فقہائے کرام کا اِس مسئلے میں اختلاف ہے کہ اشارے کے معتبر ہونے کے لیے کتابت پر قدرت ہونا شرط ہے یا نہیں، تو قولِ معتمد یہ ہے کہ یہ شرط نہیں ہے۔ البتہ گونگے کے اشارہ کرنے میں یہ ضروری ہے کہ اُس کا اشارہ اپنے مفہوم پر دلالت کرنے میں معروف ومعہود ہو، ورنہ اشارے کا بھی اعتبار نہیں ہو گا۔(الاشباہ والنظائر، صفحہ 296، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
دیگر دو کتابوں کے حوالہ جات یہ ہیں:
(مجمع الضمانات، جلد02، صفحہ 932، مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت)
(تکملۃ ردالمحتار مع درمختار، جلد 12،کتاب الاقرار، صفحہ 146 ، مطبوعہ کوئٹہ )
خود علامہ شامی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے فتاوٰی شامی کے بالکل آخر پر”مسائل شتی“ کے باب میں اِسی بات کو معتمد قرار دیا کہ کتابت پر قدرت کے باوجودگونگے کا اشارہ معتبر ٹھہرے گا، چنانچہ لکھا:”إطلاقه يفيد اعتبار الإيماء مع قدرته على الكتابة وهو المعتمد، لأن كلا منهما حجة ضروریة كما في القهستاني وغيره در منتقى“ترجمہ:ماتن کا اپنے جملے کو مطلق رکھنا یہ فائدہ ثابت کر رہا ہے کہ کتابت پر قدرت کے باوجود اشارہ معتبر ہے اور یہی قول معتمد ہے، کیونکہ دونوں(اشارہ وکتابت)میں سے ہر ایک بذاتِ خود ضروری اور قابلِ اثبات دلیل وحجت ہے، جیسا کہ”قہستانی“ وغیرہ میں ہے۔(ردالمحتار مع درمختار، جلد 24،مسائل شتی، صفحہ 217 ، مطبوعہ دار الثقافۃ والتراث، دمشق)
اِسی قولِ معتمد کو علامہ اَحمد طَحْطاوی حنفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ(وِصال:1231ھ/1815ء) نے بھی اپنے حاشیہ میں بیان کیا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، جلد04، صفحہ 355، مطبوعہ کوئٹہ )
مفتی محمد نور اللہ نعیمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1403ھ/1982ء) سے سوال ہوا کہ ایک گونگا بہرہ شخص ہے، اشاروں سے کلام کرتا ہے اور لکھنا بھی جانتا ہے۔ اُس کے نکاح کا کیا طریقہ ہو گا؟‘‘
آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جواب دیا:’’ اُس کو اشارہ سے سمجھا دیا جائے کہ ”تیرا نکاح اس لڑکی کے ساتھ کیا ہے۔ کیا تجھے قبول ہے؟“پھر اگر وہ اشارہ کر دے کہ”قبول ہے“ تو نکاح ہو گیا، یونہی لکھ کر اس کے سامنے کر دیا جائے اور وہ قبول کا اشارہ کر دے یا لکھ دے تو جائز ہے ۔۔۔اور یونہی اکثر کتبِ مذہب میں ہے:اور اُس کا لکھنا اشارہ سے بھی اچھا ہے، جبکہ باقاعدہ صحیح لکھ سکتا ہو کہ ”میں فلاں بن فلاں ہوں، اِس لڑکی فلانہ بنت فلاں کا نکاح قبول کرتا ہوں۔“(فتاوٰی نوریہ ،جلد02،صفحہ356،مطبوعہ دارالعلوم حنفیہ فریدیہ، بصیر پور)
اِس جزئیہ میں جس گونگے شخص کے متعلق سوال ہوا، وہ کتابت بھی جانتا تھا، اس کے باوجود جواب دینے میں ”اشارے“ والے طریقے کو مقدم رکھ کر جواب دیا گیا اور آخر پر لفظِ ”اچھا“ سے تحریری نکاح کا مشورہ دیا۔فقیہ اعظم رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کا جواب اوپر نقل کردہ قولِ معتمد کو سامنے رکھتے ہوئے ہے۔
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم
کیا محرم میں نکاح جائز ہے؟
بھائی کی رضاعی بہن سے نکاح کے احکام؟
پانچ سال کی بچی کو دودھ پلایا تھا کیا اس سےبیٹے کا نکاح ہوسکتا ہے؟
دوسگی بہنوں سے نکاح کرنے کا حکم ؟
زوجہ کی بھانجی سے دوسری شادی کرلی اب کیا حکم ہے؟
کیا چچازاد بہن کی بیٹی سے نکا ح جائز ہے؟
کیا ایک ساتھ تین شادیوں کا پروگرام کرسکتے ہیں؟
کیانکاح میں دولھا اور دلہن کے حقیقی والد کا نام لینا ضروری ہے ؟