Gair Qaum Mein Shadi Karna

غیر قوم میں شادی کرنا

مجیب: مولانا سید مسعود علی عطاری مدنی

فتوی نمبر:Web-1037

تاریخ اجراء: 13محرم الحرام1445 ھ/01اگست2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا غیر قوم میں شادی کرنا جائز نہیں ؟اکثر دیکھا گیا ہے کہ اپنی قوم میں لڑکے یا لڑکی کا اچھا رشتہ مل نہیں رہا ہوتا جب کہ دوسری قوم میں اگر کیا جائے تو اچھا رشتہ مل رہا ہوتا ہے،لیکن صرف اس وجہ سے شادی نہیں کرتے کہ وہ غیر قوم کے ہوتے ہیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جب لڑکا اور لڑکی باہم ایک دوسرے کے کفو ہوں یعنی لڑکا لڑکی سے ذات ،مال و دین میں کم تر نہ ہو  اور دونوں صحیح العقیدہ  ہوں تو اب  اگرچہ لڑکا  اور لڑکی ایک قوم کے نہ بھی ہوں والدین کو  بلا وجہ ان کے نکاح میں تاخیر نہیں کرنی چاہئے۔

   شیرِ خدا حضرت مولیٰ علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے، نبی صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:”یا علی ! ثلاث لا توخرھا:  الصلاۃ اذا اتت والجنازۃ اذا حضرت  والایم اذا وجدت لھا کفو“یعنی اے علی! تین چیزوں میں تاخیر نہ کرو۔ (1) نماز کا جب وقت آجائے( 2) جنازہ جب موجود ہو (3)بے شوہر والی کا جب کفو مل جائے۔(جامع الترمذی،صفحہ 225،الحدیث1075، مطبوعہ:ریاض)

   اس حدیث پاک کے تحت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:”ایم بے خاوند والی بالغہ عورت کو کہتے ہیں کنواری ہو یا بیوہ یعنی جب لڑکی کے لئے مناسب رشتہ مل جائے تو بلا وجہ دیر مت لگاؤ کہ اس میں ہزارہا فتنہ ہیں۔ “(مراۃ المناجیح، جلد1، صفحہ 386، نعیمی کتب خانہ ، گجرات)

   اپنی برادری میں ہی شادی کرنا شرعاً ضروری نہیں ، دوسری برادری میں بھی مناسب رشتہ مل جائے تو والدین کو چاہیے کہ شادی کر دیں ، بلاوجہ شادی سے انکار نہ کریں۔ بہر حال یہ حکم اپنی جگہ باقی رہے گا کہ اگر والدین کسی بھی وجہ سے وہاں شادی نہ کریں تو اولاد کو یہ اجازت نہیں کہ ازخود غیر محرم سے رابطہ کرے، اگر غیر محرم سے رابطہ رکھیں گے تو گنہگار ہوں گے۔  اولاد کو چاہیے کہ والدین کی رضامندی سے ہی نکاح کرے کہ والدین اولاد کے لئے اچھا ہی سوچتے ہیں والدین کی رضامندی میں دنیا و آخرت کی بھلائی ہے۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم