Biwi Ki Mojudgi Mein Bewah Sali Se Nikah Karna Kaisa ?

بیوی کی موجودگی میں بیوہ  سالی سے نکاح کرنا کیسا؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13030

تاریخ اجراء:        23ربیع الاول1445 ھ/10اکتوبر 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ زید کی سالی ابھی عدتِ وفات میں ہے ، کیا عدت پوری ہونے کے بعد زید کا سالی سے نکاح کرنا ، جائز ہے؟ جبکہ زید کی بیوی اُس کے نکاح میں موجود ہے۔ بعض لوگوں کا یہ کہنا ہے کہ سالی اگر بیوہ ہوجائے تو اب بیوی کی موجودگی میں بھی  اُس بیوہ سالی سے مرد نکاح کر سکتا ہے؟ اس حوالے سے رہنمائی فرمائیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرآن و حدیث کی روشنی میں بیوی کے نکاح میں ہوتے ہوئے سالی یعنی بیوی  کی بہن سے نکاح کرنا حرام قطعی ہے، خواہ سالی کنواری ہو یا طلاق یافتہ ہو یا بیوہ ہو،لہذا پوچھی گئی صورت میں زید کا اپنی بیوہ سالی سے نکاح سخت ناجائز و حرام ہے۔

    جن لوگوں نے یہ مسئلہ بیان کیا ہے کہ ” سالی بیوہ ہوجائے تو بیوی کی موجودگی میں اُس سالی سے نکاح ہوسکتا ہے “معاذ اللہ انہوں نے بالکل ہی غلط  مسئلہ بیان کیا اور ایک حرام قطعی فعل کو اپنی اٹکل پچو سے حلال قرار دیا ہے، لہذا اُن سب پر لازم ہے کہ وہ اس گناہ سے توبہ کریں  اور آئندہ بغیر علم کے ہرگز کوئی شرعی مسئلہ بیان نہ کریں، کیونکہ بغیر علم کے فتویٰ دینا شریعت پر افتراء باندھنا ہے جوکہ ناجائز وحرام ہےاور قرآن و حدیث میں اس کی شدید مذمت بیان ہوئی ہے۔

   دو بہنوں کو ایک ساتھ نکاح میں جمع کرنا حرام ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:”وَ اَنۡ تَجْمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخْتَیۡنِ“ ترجمہ کنزالایمان:”اور دو بہنیں اکٹھی کرنا(تم پر حرام ہے)۔“(القرآن الکریم: پارہ 04، سورۃ النساء، آیت 23)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ سے سوال ہوا کہ”عالم حیاتِ زوجہ میں حقیقی سالی یا رشتہ کی سالی سے نکاح جائز ہے یا نہیں؟“آپ علیہ الرحمہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”تاحیاتِ زوجہ جب تک اسے طلاق ہوکر عدت نہ گزرجائے اس کی بہن سے جو اس کے باپ کے نطفے یا ماں کے پیٹ سے یا دودھ شریک ہے ، نکاح حرام ہے۔ قال اللہ تعالیٰ"وَ اَنۡ تَجْمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخْتَیۡنِ(حرام کیا گیا  ہے کہ تم دو بہنوں کو نکاح میں جمع کرو۔)" ۔“(فتاوٰی رضویہ،ج 11، ص 315-314، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر فتاوٰی رضویہ میں ہے:”بموجودی زوجہ سالی سے نکاح حرام ہے۔“    (فتاوٰی رضویہ،ج 11، ص 317، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   فتاوٰی خلیلیہ میں ہے:”جب ایک بہن نکاح میں ہو تو دوسری بہن سے نکاح حرام ہے اور اس کی حرمت ایسی نہیں کہ کسی امام نے اپنے اجتہاد سے نکالی ہو جس میں دوسرے امام کو خلاف کی گنجائش ہو بلکہ اس کی حرمت قرآن عظیم نے خاص اپنی نص واضح صریح سے ارشاد فرمائی ہے کہ " وَ اَنۡ تَجْمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخْتَیۡنِ "اور تم پر حرام کی گئی یہ بات کہ دو بہنوں کو نکاح میں اکھٹی کرو۔ تو جس طرح آدمی پر ماں، بہن، بیٹی حرام ہیں اسی طرح دو بہنوں کو جمع کرنا اس پر حرام ہے ۔“(فتاوٰی خلیلیہ،ج 01، ص 544، ضیاءالقرا ن، لاہور)

   فتاوٰی بحر العلوم میں ہے: ”بیوی یا اس کی عدت میں سالی سے نکاح حرامِ قطعی ہے ، قرآن عظیم میں ہے: "وَ اَنۡ تَجْمَعُوۡا بَیۡنَ الۡاُخْتَیۡنِ(نکاح میں دو بہنوں کو جمع کرنا حرام کیا گیا ہے۔)" اس کو جائز بتانے والے ، نکاح میں کسی قسم کا حصہ لینے، مددگار، مشیر وغیرہ سب گنہگار، سب پر توبہ واجب ہے۔(فتاوٰی  بحر العلوم ، ج 02، ص 303، شبیر برادرز، لاہور)

   بغیر علم کے فتویٰ دینا  شریعت پر افتراء(تہمت) باندھنا ہے جو کہ سخت نا جائز و حرام ہے۔ جیسا کہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:وَ لَا تَقُوۡلُوۡا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ہٰذَا حَلٰلٌ وَّ ہٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوۡا عَلَی اللہِ الْکَذِبَترجمہ کنز الایمان : ”اور نہ کہو اسے جو تمہاری زبانیں جھوٹ بیان کرتی ہیں یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ باندھو۔“ (القرآن الکریم: پارہ 14، سورۃ النحل، آیت 116)

   سیدی اعلیٰ حضرت علیہ الرحمہ ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں:فتوی ملعونہ ایشاں رانا فذمی کنند ہمہ ہاحرام خدا راحلال می نمایند ہمچو کسان راحرام وسخت حرام ست کہ تصدی بافتاکنند درحدیث فرمود من افتی بغیر علم لعنتہ ملئکۃ السماء والارض“( ترجمہ: جنھوں نے بھی بے علم کے فتویٰ نافذ  کیاانھوں نے اللہ عزوجل کے حرام کو حلال کیا، اور جنھوں نے  وہ فتوی دیا ، حرام کام کا فتوی دیا (کنزالعمال )کی حدیثِ مبارک ہے"من افتیٰ بغیر علم لعنتہ ملئکۃ السماء والارض "یعنی جس نے علم کے بغیر فتویٰ دیااس پر زمین و آسمان کے فرشتے لعنت کرتے ہیں۔(فتاوٰی رضویہ، ج 11، ص 477، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم