Biwi Ki Beti Se Shadi Karne Ka Hukum

بیوی کی بیٹی سے شادی کرنے کا حکم

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12995

تاریخ اجراء:        28 صفر المظفر 1445 ھ/15 ستمبر 2023 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ   ایک عورت کو اس کے شوہر نےطلاق دے دی،جس سے  اس کی ایک بیٹی تھی، عدت گزرنے کے بعدعورت نے کسی دوسرے شخص سے نکاح کر لیا  اور اس سے دو بیٹے بھی ہوئے،اس کے بعد اس عورت کا انتقال ہوگیا ۔سوال یہ ہے کہ اس عورت کے دوسرے شوہر کا اس کی بیٹی جو کہ پہلے خاوند سے تھی  اس سے نکاح ہو سکتا ہے یا نہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی  گئی صورت میں مذکورہ شخص کا اپنی مرحومہ بیوی کی بیٹی جو اس کےپہلے شوہر سے ہے ، اس سے نکاح کرنا حرام ہے کہ جس عورت سے نکاح کرنے کے بعد ازدواجی تعلقات قائم کر لئے گئے ہوں ، اس کی بیٹی  شوہر پرہمیشہ کے لئے حرام ہوجاتی ہے،بیوی کے فوت ہونے کے بعد بھی اس سے نکاح کرنا کسی صورت جائز نہیں ۔

   سوتیلی بیٹی کے حرام ہونے سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے :﴿وَرَبَائِبُکُمُ الّٰتِیۡ فِیۡ حُجُوۡرِکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیۡ دَخَلْتُمۡ بِہِنترجمہ کنزالایمان :اور ان کی بیٹیاں جو تمہاری گود میں ہیں اُن بیبیوں سے جن سے تم صحبت کرچکے ہو۔ (القرآن الکریم،پارہ04،سورۃ النساء،آیت:23)

   امام حافظ الدین ابوالبرکات نسفی  رحمۃ اللہ علیہ اس آیت کے تحت فرماتے ہیں:”الربیبۃ من المراۃ المدخول بھا حرام علی الرجل“یعنی جس عورت کے ساتھ دخول کر لیا ہو، اس کی بیٹی مرد پر حرام ہے۔(تفسیر نسفی، جلد1،صفحہ 346، بیروت)

   در مختار میں ہے:”حرم المصاھرۃ  بنت زوجتہ  الموطوءۃ“یعنی اپنی موطوءہ بیوی کی بیٹی مصاہرت کی وجہ سے حرام ہے۔(در مختار مع رد المحتار، جلد3،صفحہ 30، مطبوعہ:بیروت)

   امام اہلسنت شاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ مذکورہ آیت نقل کرنے کے بعد ارشاد فرماتے ہیں:”اس آیہ کریمہ میں زنِ مدخولہ کی بیٹی حرام فرمائی  ۔۔۔ مناطِ حرمت صرف وطی ہے اور حاصلِ آیتِ کریمہ یہ کہ جس عورت سے تم نے کسی طرح صحبت کی،  اگرچہ بلانکاح اگرچہ بروجہ حرام، اس کی بیٹی تم پر حرام ہوگئی۔(فتاوی رضویہ ملتقطاً ، جلد 11، صفحہ 355-354، رضافانڈیشن لاہور)

   صدر الشریعہ  مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ سے سوال ہوا :”کیا زوجہ کی لڑکی سے اس کی موجودگی میں نکاح ہوسکتا ہے؟“ آپ رحمۃ اللہ علیہ اس کے جواب میں فرماتے ہیں:”جس عورت سے نکاح کیا اور دخول بھی کرچکا، اس کی لڑکی حرام ہے ، نہ عورت کی موجودگی میں اس سے نکاح کرسکتا ہے اور نہ اس کے مرنے یا طلاق دینے کے بعد، اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا"وَرَبَائِبُکُمُ الّٰتِیۡ فِیۡ حُجُوۡرِکُمۡ مِّنۡ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیۡ دَخَلْتُمۡ بِہِن"۔“(فتاویٰ امجدیہ، جلد2، صفحہ 89، مکتبہ رضویہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم