Biwi Ke Piche Se Jima Karne Par Nikah Ka Hukum

بیوی کے پچھلے مقام میں جماع کرنے سے نکاح کا حکم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-2194

تاریخ اجراء: 30ربیع ا الثانی1445 ھ/15نومبر2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر کوئی شوہر اپنی بیوی کے پچھلے مقام میں ہمبستری کرلے ،تو کیا  اس سے نکاح ٹوٹ جاتا ہے؟ اور کیا اس عمل سے  کوئی کفارہ بھی  لازم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شوہر کا اپنی بیوی کے پچھلے مقام میں ہمبستری کرنا،شرعاً سخت حرام  و گناہ ِکبیرہ  ہے۔حدیثِ پاک میں ایسا  کرنے والے شخص  پر لعنت  وارد ہوئی ہے، لہذا  اِس  ناجائز اور قبیح فعل سے  بچنا بہت ضروری ہے۔ اور  جس شخص سے یہ کام  سرزد ہو گیا ہوتو اس پر لازم ہے کہ سچے دل سے اللہ پاک  کی بارگاہ   میں توبہ کر ے اور  آئندہ ایسا نہ کرنے کا پختہ ارادہ  کرے،اور یہ توبہ کرنا ہی اِس گناہ کا کفارہ ہوگا،توبہ کے علاوہ کسی اور قسم کا کوئی کفارہ لازم نہیں ہوگا۔نیز  اس ناجائز عمل کو کرنے  سے نکاح   پر  کوئی اثر نہیں پڑے گا، عورت بدستور شوہر کے نکاح میں ہی رہے گی۔ یہ  مذکورہ  حکم  اس صورت میں ہے جبکہ اس کام کو حرام سمجھ کر ہی کیا ہو۔البتہ  اگر اُسے  حلال سمجھ کر کیا ،تو   اب یہ کفر ہوگا اور ایسا کرنے والے شخص  پر  لازم ہوگا کہ  اپنے اس فعل سے توبہ  کرنے کے ساتھ ساتھ،نئے سرے سے کلمہ پڑھے  اور کلمہ پڑھنے کے بعد اپنی عورت سے تجدیدِ نکاح  کرے۔  

   عورت کے پچھلے مقام میں ہمبستری کرنے والے شخص  پر لعنت کی گئی ہے،چنانچہ سنن ابی داؤد کی حدیث مبارکہ ہے ’’عن أبی ھریرۃ، قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملعون من أتی امرأتہ فی دبرھا‘‘ترجمہ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :ملعون ہے وہ جو اپنی عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرے۔(سنن ابی داؤد، جلد2، کتاب النکاح ،صفحہ249،رقم الحدیث:2162،المکتبۃ العصریۃ، بیروت)

   المعجم الکبیر للطبرانی کی حدیث پاک ہے:’’عن خزيمة بن ثابت، أن رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم قال: إن اللہ لا يستحيي من الحق لا يحل لأحد أن يأتي النساء في أدبارهن‘‘ ترجمہ:حضرت خزیمہ بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بیشک اللہ تعالی حق بیان کرنے سے حیا نہیں  فرماتا، کسی کے لئے حلال نہیں  کہ وہ عورتوں  کے پچھلے مقام میں  وطی کرے۔(المعجم الکبیر،جلد4،صفحہ88،رقم الحدیث :3736،مطبوعہ: قاهرة)

   مرآۃ المناجیح  میں ہے:’’عورت  کی دبر  میں وطی کرنا تمام دینوں میں حرام ہے اسلام میں حرامِ قطعی ہے کہ اس کا منکر کافر ہے(اور) اس کا مرتکب فاسق و فاجر‘‘۔(مرآۃ المناجیح، جلد5، صفحہ55، مطبوعہ  مکتبہ اسلامیہ)

   شوہر کا اپنی بیوی کے پچھلے مقام میں ہمبستری کرنا،شرعاً حلال نہیں،چنانچہ الاختیارلتعلیل المختارمیں ہے:’’ولا يحل له الاستمتاع بهافی الدبرولافی الفرج حالةالحيض‘‘ ترجمہ: اورمردکے لئے اپنی عورت کے پچھلے مقام میں  جماع کرناحلال نہیں ہے اور حالتِ حیض میں فرج میں وطی کرنا بھی حلال نہیں ہے ۔(الاختیارلتعلیل المختار،جلد4، صفحہ155،مطبوعہ قاهرة،مصر)

   بیوی کے پچھلے مقام میں ہمبستری کرنا،اگر حلال جان کر ہو،تو یہ کفر ہے،چنانچہ  جامع ترمذی کی حدیث مبارکہ ہے : ’’عن أبي هريرة، عن النبي صلى اللہ عليه وسلم قال:من أتى حائضا، أو امرأة في دبرها، أو كاهنا، فقد كفر بما أنزل على محمد‘‘ترجمہ: حضرت ابوہریرہ  رضی اللہ عنہ سے مروی ہے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا  کہ جو حائضہ عورت سے جماع کرے یا عورت کے پچھلے مقام میں جماع کرے یا  کاہن کے  پاس جائےتو  اس نے  اس کا انکار کیا جومحمد مصطفے  صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل کیا گیا۔  (جامع ترمذی،جلد1،صفحہ242،رقم الحدیث:135، مطبوعہ: مصر)

   مذکورہ حدیث پاک کی شرح میں علامہ عبد الرؤف مناوی رحمۃ اللہ علیہ، فیض القدیر میں لکھتے ہیں:’’المراد أن من فعل هذه المذكورات واستحلها فقد كفر ومن لم يستحلها فهو كافر النعمة۔۔۔وليس المراد حقيقة الكفر‘‘ترجمہ:مراد یہ ہے کہ جس شخص نےیہ مذکورہ کام حلال سمجھ کر کیا، تو وہ کافر ہوگیا اور جس نے اس کو حلال سمجھ کر نہ کیا ،تو وہ نعمت کی ناشکری کرنے والا ہے اور اس صورت میں یہ حقیقی کفر نہیں۔(فیض القدیر،جلد6،حرف المیم، صفحہ23،مطبوعہ مصر)

   مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃاللہ علیہ مراٰۃ المناجیح میں،حدیث کی شرح بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:’’ یعنی یہ تینوں شخص قرآن وحدیث کے منکرہوکر کافرہوگئے۔خیال رہے کہ یہاں سے شرعی کفر ہی مراد ہے اسلام کا مقابل۔ اوران سے وہ لو گ مراد ہیں جو عورت سے دبر میں،یابحالت حیض صحبت کوجائزسمجھ کر صحبت کریں ۔‘‘(مرآۃ المناجیح، جلد1،صفحہ308،مطبوعہ :مکتبہ اسلامیہ)

   تنویر الابصار مع در مختار میں ہے:’’ویمنع۔۔۔ وطؤها(یکفر مستحلہ)۔۔۔وکذا مستحل وطء الدبر عند الجمھور‘‘ ملتقطا“ ترجمہ:اور حائضہ  عورت سے وطی ممنوع ہے،اور اس کو حلال جاننے والے  کی تکفیر کی جائے گی،اور  جمہور کے نزدیک یہی حکم عورت کے پچھلے مقام میں وطی کو حلال جاننے والے کا ہے۔(تنویر الابصار مع در مختار،جلد1،صفحہ533،542،مطبوعہ کوئٹہ)

   فتاوی رضویہ میں سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ ،ارشاد فرماتے ہیں:’’حلال کو حرام،حرام کو حلال ٹھہرانا ائمہ حنفیہ کے مذہبِ راجح میں مطلقًا کفر ہے، جبکہ ان کی حلت وحرمت قطعی ہو ۔۔۔ اور اگر وہ حرامِ قطعی، حرام لعینہ ہے۔۔۔ جب تو اُسے حلال ٹھہرانا باجماعِ ائمہ حنفیہ کفر ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد14،صفحہ147،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم