Biwi Ke Inteqal Ke Baad Saas Se Nikah Karna Kaisa ?

 

بیوی کے انتقال کے بعد ساس سے نکاح کرنا کیسا ؟

مجیب:مولانا احمد سلیم عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3038

تاریخ اجراء: 30صفر المظفر1446 ھ/05ستمبر2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کسی  شخص کی بیوی کا انتقال ہو گیا ہے ،کیا وہ اپنی ساس سے نکاح کر سکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   شرعی اعتبار سے داماد کے لیے ساس محرم ہے کہ وہ بیوی کی ماں ہے،اور   اس کی حرمت نصِ قطعی سے ثابت ہے، لہذا بیوی کے انتقال کے بعد  بھی  داماد کا اپنی ساس سے نکاح کرنا جائز نہیں۔

   داماد کے لیے ساس محرم ہے،اللہ تعالی نے ارشاد فرمایا :﴿وَ اُمَّهٰتُ نِسَآىٕكُمْ  ﴾ترجمہ کنزالایمان:(حرام ہوئیں تم پر ) عورتوں کی مائیں۔(پارہ 4،سورۃ النساء،آیت 23)

   فتاوی  ہندیہ میں ہے”(القسم الثاني المحرمات بالصهرية) وهي أربع فرق: (الأولى) أمهات الزوجات وجداتهن من قبل الأب والأم وإن علون“یعنی محرمات کی دوسری قسم سسرالی رشتے سے  محرم بننے والی عورتیں ہیں اور یہ چار قسم کی  ہیں، ان میں سے پہلی قسم، بیویوں کی مائیں ہیں اوران کی دادیاں اورنانیاں ہیں ، اگر چہ کتنے ہی اوپر والے درجے کی ہوں۔(فتاوی ھندیۃ،کتاب النکاح،ج 1،ص 274،دار الفکر،بیروت)

     فتاوی رضویہ میں ہے”ساس پر داماد مطلقاً حرام ہے اگرچہ اس کی بیٹی کی رخصت بھی  نہ ہوئی ہو اور قبل رخصت مرگئی ہو، قال اللہ تعالٰی: وَ اُمَّهٰتُ  نِسَآىٕكُمْ  (اور تمہاری بیویوں کی مائیں تم پر حرام ہیں)۔“(فتاوی رضویہ، ج 11، ص  439، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم