Aurat Par Shohar Aur Walid Me Se Ziada Haq Kis Ka Hai ?

عورت پر شوہر اور والد میں سے زیادہ حق کس کا ہے ؟

مجیب: ابومحمد محمد فراز عطاری مدنی

فتوی نمبر: Gul-2565

تاریخ اجراء:       16محرم الحرام  1444 ھ/ 15 اگست  2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زینب کا نکاح حسن سے ہوا،زینب اور حسن دونوں اچھی زندگی گزاررہے ہیں ،زینب کا میکہ اسی شہر میں قریب ہی ہے ۔زینب جب میکے جاتی ہے، تو اس کے والد کئی مرتبہ زینب کو اپنے میکے میں کئی کئی دن تک روکے رکھتے ہیں،جس پرحسن راضی نہیں ہے۔کئی مرتبہ بحث و تکرار بھی ہوجاتی ہے۔زینب کے والد یہ کہتے ہیں کہ چونکہ میں تمہارا والد ہوں ،لہذا میں جو کہوں گا اسی پر عمل کرنا ہوگا ،اگرمیرے مقابلے میں تم نے کسی بھی معاملے میں کسی دوسرے کو ترجیح دی، تو تم گنہگار ہوگی۔

   1۔پوچھنا یہ ہے کہ اس معاملے میں زینب کس کی بات مانے؟ شوہر کی یا والد کی؟

   2۔شوہراگرباہرکے ملک چلا جاتا ہے ،اور وہ بیوی کو اپنےماں باپ کے ساتھ اپنے گھرچھوڑ جاتا ہے،اور وہیں رہنے کی تاکید کرتا ہے۔بیوی بھی وہاں رہنے پرراضی ہو اوراسے شوہرکے رشتہ داروں سے ایذاء بھی نہ ہو،عزت وحرمت پربھی کوئی فتنہ نہ ہو،مگرزینب کے والد کہیں کہ یہ ہمارے گھر ہی رہے گی، تو اس صورت میں بھی بتائیں کہ شوہرکی بات مانی جائے گی یا والد کی؟

   نوٹ: سوال میں درج نام  فرضی ہیں ۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   1۔جومعاملات ازدواجی زندگی سے تعلق رکھتے ہیں،ان معاملات میں عورت پرمطلقاً شوہرکی اطاعت لازم ہے۔ حدیث پاک میں بھی عورت پرسب سے زیادہ حق ،شوہرکا فرمایا گیا ہے۔البتہ ہفتے میں ایک مرتبہ عورت کو اپنے والدین سے ملنے سے شوہر منع نہیں کرسکتا ۔لیکن عورت ،رات کہاں پرگزارے گی،اس معاملے میں شوہر کی رائے کو ترجیح دی جائے گی ۔اگرشوہراس بات پرراضی نہیں ہے کہ عورت اپنے میکے میں رات گزارے ،تو شوہر کی اطاعت کرنا ضروری ہے۔زینب کے والد کو بھی چاہیے کہ وہ شریعت کی پاسداری کرتے ہوئے بلاوجہ اپنی بیٹی کو شوہرکی اجازت کے بغیرمیکے میں ہرگز نہ روکیں۔والدین کے حقوق اپنی جگہ پرلازم ہیں،مگریہاں انہیں شوہرکے حقوق کوترجیح دیتے ہوئے زبردستی اپنا حکم نافذ نہیں کرنا چاہیے،اسی میں ان کی،اوران کی  بیٹی کی بھی بھلائی ہے۔جب ہرشخص شریعت کی رہنمائی میں ہی حقوق کی ادائیگی کا خیال رکھے گا ،تو لڑائی جھگڑے کی نوبت نہیں آئے گی۔

   السنن الکبری للنسائی اورمستدرک للحاکم میں ہے:”واللفظ للمستدرک:عن عائشۃ رضی اللہ تعالٰی عنھا :قالت: قلت یارسول اللہ أی الناس أعظم حقا علی المرأۃ ؟ قال: زوجھا۔قلت: فأی الناس أعظم حقا علی الرجل؟ قال:أمہ“ ترجمہ:حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے روایت ہے،فرماتی ہیں کہ میں نے عرض کی: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم عورت پرلوگوں میں سے سب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کے شوہرکا۔ میں نے عرض کی :مرد پرسب سے زیادہ حق کس کا ہے؟ فرمایا: اس کی ماں کا۔(المستدرک للحاکم ، جلد4، صفحہ 167،مطبوعہ بیروت)

   اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن شوہرکے حقوق بیان کرتے ہوئےفرماتے ہیں:”امور متعلقہ زن وشوی میں مطلقا اس کی اطاعت کہ ان امور میں اس کی اطاعت والدین پربھی مقدم ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد24،صفحہ371،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   ایک اورمقام پرارشاد فرمایا:”شوہرکے حقوق ،عورت پربکثرت ہیں اور اس پر وجوب بھی اشدوآکد،ہم اس پر حدیث لکھ چکے کہ عورت پرسب سے بڑا حق شوہرکا ہے ،یعنی ماں باپ سے بھی زیادہ، اور مرد پرسب سے بڑا حق ماں کا ہے ،یعنی زوجہ کا حق اس سے ،بلکہ باپ سے بھی کم۔“ (فتاوی رضویہ ،جلد24،صفحہ 391،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   رات گزارنے میں بھی شوہرکی اطاعت ضروری ہے۔البحرالرائق میں ہے:”الصحیح أنہ لایمنعھا من الخروج الی الوالدین ولا یمنعھما من الدخول علیھا فی کل جمعۃ وفی غیرھما من المحارم فی کل سنۃ وانما یمنعھم من الکینونۃ عندھا وعلیہ الفتوی کما فی الخانیۃ“ ترجمہ:صحیح یہ ہے کہ عورت کوہرجمعے والدین کی طرف جانے سے منع نہیں کیا جائے گااور والدین کو بھی عورت کی طرف آنے سے منع نہیں کرے گا۔والدین کے علاوہ محارم سے سال میں ایک مرتبہ ملنے سے منع نہیں کرے گا۔عورت کے پاس والدین کو رات گزارنے سے منع کرسکتا ہے۔اسی پرفتوی ہے، جیسا کہ خانیہ میں ہے۔ (البحرالرائق، جلد4،صفحہ330،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارشریعت میں ہے:” عورت کے والدین ہر ہفتہ میں ایک بار اپنی لڑکی کے یہاں آسکتے ہیں، شوہر منع نہیں کرسکتا، ہاں اگر رات میں وہاں رہنا چاہتے ہیں، تو شوہر کومنع کرنے کا اختیار ہے اور والدین کے علاوہ اور محارم سال بھر میں ایک بار آسکتے ہیں۔ یوہیں عورت اپنے والدین کے یہاں ہر ہفتہ میں ایک بار اور دیگر محارم کے یہاں سا ل میں ایک بار جاسکتی ہے، مگر رات میں بغیر اجازت شوہر وہاں نہیں رہ سکتی، دن ہی دن میں واپس آئے۔(بھارشریعت، جلد2، حصہ8،صفحہ272،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   2۔یہ حق بھی شوہرکو ہے کہ وہ جہاں پر اپنی بیوی کو ٹھہرائے وہ وہیں پر رہائش اختیارکرے گی۔جب تک کوئی شرعی عذرنہ پایا جائے تب تک شوہراس کو گھرسےنکلنے سے منع کرسکتا ہے ۔اس میں چاہے شوہرسفرپرہو یا نہ ہو ،دونوں صورتوں میں ہی شوہرکو منع کا اختیارہے۔اس کی ایک دلیل یہ ہے کہ شوہرپرعورت کا نفقہ اس لیے ہوتا ہے کہ عورت ،شوہرکے حق میں ،شوہرکے گھرمیں یا اس کی اجازت سے کہیں اور مقیم ہو ۔یہ نفقہ اس وقت بھی واجب ہوتا ہےجب شوہرسفرپرہو،یا غائب ہوجائے یا قید کرلیا جائے۔اس سے معلوم ہوا کہ شوہرسفرکی حالت میں ہو،تب بھی عورت ، شوہرکے حق میں شوہرکے گھر مقیم ہونے کے سبب   اپنا حق احتباس ادا کرنے والی کہلائےگی۔اسی وجہ سے  شوہرکے سفرپرہونے کے باوجود نفقہ لازم ہورہا ہے۔اگرشوہرکی اجازت کے بغیراس کے گھرسے  جائے گی ،تو ناشزہ کہلائے گی اورنفقہ بھی ساقط ہوجائے گا ،کیونکہ احتباس ختم ہوگیا،اورعورت کو ناشزہ بننے کی اجازت نہیں ہے۔

   دوسری دلیل یہ نظیربھی ہے کہ فقہاء نے ذکرفرمایا ہے کہ عورت اگراس وقت شوہرکے گھرواپس آئی جب شوہرسفرپرتھا ،تب بھی اس کا ناشزہ ہونا ختم ہوجائے گا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ نشوز کے ختم ہونے کے لیے شوہرکے مسافریا مقیم ہونے کا اعتبارنہیں کیا جائے گا ،لہذا  نشوز کے متحقق ہونے کے لیے بھی شوہرکے مسافریا مقیم ہونے کا اعتبارنہیں ہوگا۔اعتبار ان امور میں شوہر کی رضا مندی اور اطاعت کا ہے ۔

   نیز سوال میں مذکورہے کہ شوہراس بات کا متقاضی ہے کہ عورت اس کی غیر موجودگی میں اس کے گھر میں اس کے والدین کے ساتھ رہے ۔او ر اس کی عزت وحرمت پربھی کوئی فتنہ نہیں ،ایسی صورت میں بیوی کے والد کو زبردستی اپنے گھر رکھنے کا اختیارنہیں ۔

   شوہرجہاں چاہے عورت کو رکھے،اس تعلق سے مجمع الانہر میں ہے:”یجب (علی الزوج ان یسکنھا )ای الزوجۃلقولہ تعالی ﴿اَسْكِنُوْهُنَّ مِنْ حَیْثُ سَكَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِكُمْ (فی بیت)ای فی مکان یصلح مأوی للانسان حیث أحب لکن بین جیران صالحین“ ترجمہ:شوہرپرواجب ہے کہ وہ اپنی بیوی کو رہائش دے، کیونکہ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے” عورتوں کو وہاں رکھو جہاں خود رہتے ہو،اپنی طاقت بھر“یہ رہائش  ایسے مکان میں دے جہاں انسان رہ سکتے ہوں ،رہائش جہاں چاہے دے ،مگرنیک پڑوسیوں کے درمیان ہو۔ (مجمع الانھر،جلد2،صفحہ  185،مطبوعہ کوئٹہ)

   شوہرکواس بات کا اختیارہے کہ وہ عورت کوبلاوجہ گھرسے باہرجانے سے منع کرے۔ردالمحتار میں ہے:” له منعها عن كل عمل يؤدی الى تنقيص حقه أو ضرره أو الى خروجها من بيته “ ترجمہ: شوہرکو ہراس کام سے منع کرنے کا اختیارہے جس میں شوہرکے حق میں کمی ہوتی ہو یا شوہر کو نقصان ہوتا ہو ،یا عورت کو شوہرکے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہو۔(ردالمحتار، جلد5،صفحہ331،مطبوعہ کوئٹہ)

   بہارشریعت میں ہے:” عورت اگر کوئی ایساکام کرتی ہے جس سے شوہر کا حق فوت ہوتا ہے یااُس میں نقصان آتا ہے یا اُس کام کے ليے باہر جانا پڑتا ہے، تو شوہر کو منع کردینے کااختیار ہے۔بلکہ نظر بحالِ زمانہ ایسے کام سے تو منع ہی کرنا چاہیے جس کے ليے باہر جانا پڑے۔ “(بھارشریعت، جلد2،حصہ8،صفحہ272،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ،کراچی)

   نفقہ ،حق احتباس ہے یعنی شوہر کی رضا مندی جہاں رکھنے کی ہے ،وہاں رہنے پر شوہر کی فرماں برداری پوری کرنے کی وجہ سے لازم ہوتا ہے۔محیط برہانی میں ہے:”أن النفقة انما تجب عوضاً عن الاحتباس فی بيت الزوج، فاذا كان الفوات لمعنى من جهة الزوج أمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً، أما اذا كان الفوات بمعنى من جهة الزوجة لا يمكن أن يجعل ذلك الاحتباس باقياً تقديراً وبدونه لا يمكن ايجاب النفقة“ ترجمہ:بیوی کا نفقہ اس احتباس کی وجہ سے لازم ہوتا ہے، جو وہ شوہرکے گھرمیں رکھتی ہے،اگریہ احتباس کسی ایسی وجہ سے فوت ہوجائے ،جو شوہر کی طرف سے ہو،تو اس احتباس کو تقدیرا باقی رکھنا ممکن ہے۔(لہذا نفقہ بھی لازم رہے گا)اگر یہ احتباس کسی ایسی وجہ سے فوت ہوجائے،جو بیوی کی طرف سے ہو،تو اس احتباس کو تقدیرا باقی نہیں مانا جاسکتا ،اور اس احتباس کے بغیر نفقہ بھی لازم نہیں ہوسکتا۔(محیط برھانی ،جلد3،صفحہ522،مطبوعہ بیروت)

   اعلی حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں:”عورت کا نان ونفقہ کہ شوہر کے یہاں پابند رہنے کا بدلہ ہے،اگرناحق اس کے یہاں سے چلی جائے گی، جب تک واپس نہ آئے گی کچھ نہ پائے گی۔“

(فتاوی رضویہ، جلد24،صفحہ391،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

شوہر کہیں چلا جائے تب بھی نفقہ لازم ہوتا ہے۔تبیین الحقائق میں ہے:” واذا هرب الزوج أو حبس بحق أو ظلم فلها النفقة لعدم المانع من جهتها“ ترجمہ:جب شوہربھاگ جائے یا کسی حق کی وجہ سے یا ظلما قید کرلیا جائے تب بھی عورت کا نفقہ لازم ہوگا،کیونکہ مانع عورت کی طرف سے نہیں ہے۔ (تبیین الحقائق، جلد3،صفحہ305،مطبوعہ کراچی)

   شوہرمسافرہوتب بھی شوہرکے گھر واپسی پرنشوز ختم ہوجاتا ہے۔نہرالفائق میں ہے:”ولو عادت الی منزلہ بعد ما سافر أجابوا بأنھا خرجت عن أن تکون ناشزۃ ،کذا فی الخلاصۃ“ ترجمہ:اگرشوہرکے سفرپرجانے کے بعد بھی عورت ،شوہرکے گھر واپس آ گئی، تو فقہاء نے فرمایا کہ اب اس پرناشزہ کا حکم نہیں لگے گا،اسی طرح خلاصہ میں ہے۔(نھرالفائق، جلد2،صفحہ 508،مطبوعہ کراچی)

   بہارشریعت میں ہے:” عورت شوہر کے یہاں سے ناحق چلی گئی، تو نفقہ نہیں پائے گی، جب تک واپس نہ آئے اور اگر اُس وقت واپس آئی کہ شوہرمکان پر نہیں، بلکہ پردیس چلا گیا ہے، جب بھی نفقہ کی مستحق ہے۔ “(بھارشریعت، جلد2،حصہ8،صفحہ262،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   بہارشریعت میں ہے:” لڑکی ثیب ہے، مثلاً :بیوہ ہے اور فتنہ کا اندیشہ نہ ہو ،تو اُسے اختیار ہے، ورنہ باپ دادا وغیرہ کے یہاں رہے ۔“(بھارشریعت، جلد2،حصہ8،صفحہ256،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم