Aurat Bakhushi Haq Mehar Ki Raqam Maaf Karde, To Us Ke Baad Us Raqam Ka Dobara Mutalba Kar Sakti Hai?

عورت بخوشی حق مہر کی رقم معاف کردے، تو کیا اب اس رقم کا دوبارہ مطالبہ کرسکتی ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12854

تاریخ اجراء:12ذیقعدۃ الحرام1444ھ/02جون2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ اگر  کوئی عورت اپنی خوشی سے صراحتاً اپنے حق مہر کی رقم شوہر کو معاف کردے اور شوہر انکار بھی نہ کرے، تو اب بعد میں کسی بھی وجہ سے وہ دوبارہ شوہر سے حق مہر کا مطالبہ کرسکتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   عورت جب اپنی رضا مندی و خوشی سے اپنا حق مہر معاف کردے تو وہ معاف ہوجائے گا بشرطیکہ شوہر نے انکار نہ کیاہو، لہذا پوچھی گئی صورت میں وہ عورت شوہر سے دوبارہ حق مہر کی رقم کا مطالبہ نہیں کرسکتی ۔

   یہ جواب سوال کے تناظر میں تھا  کہ یہاں عورت نے حق مہر کی رقم معاف کی جو کہ دین کی صورت میں تھی۔ البتہ یہ مسئلہ ضرور ذہن نشین رہے کہ اگر حق مہر میں کوئی معین چیز مثلاً معین زمین یاکوئی اور معین سامان طے کیا ، تو اب مہر معاف کرنے سے معاف نہیں ہوگا کہ عین چیز میں معافی درست نہیں،  لہذا اس صورت میں عورت کو مطالبہ کا حق باقی رہے گا ۔

   مقررہ مہر بیوی کے بخوشی معاف کردینے سے معاف ہوجانے کے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ ہے:” فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِهٖ مِنْهُنَّ فَاٰتُوْهُنَّ اُجُوْرَهُنَّ فَرِیْضَةًؕ-وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْكُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِهٖ مِنْۢ بَعْدِ الْفَرِیْضَةِؕ-“ترجمہ کنزالایمان: ”تو جن عورتوں کو نکاح میں لانا چاہو ان کے بندھے ہوئے مہر انہیں دو اور قرار داد (طے شدہ)کے بعد اگر تمہارے آپس میں کچھ رضامندی ہوجائے تو اُس میں گناہ نہیں ۔“ (القرآن الکریم، پارہ 05،سورۃ النساء،آیت نمبر 24)

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کی تفسیر میں صدر الافاضل مولاناسید نعیم الدین مرادآبادی علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:” خواہ عورت مہر مقرّر شدہ سے کم کردے یا بالکل بخش دے یا مرد مقدار مہر کی اور زیادہ کردے ۔(تفسیر خزائن العرفان، ص 161، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   تنویر الابصار مع درمختارمیں ہے: ”(وصح حطھا) لکلہ او بعضہ(عنہ) قبل او لا“ یعنی عورت کا اپنا سارا مہر یا مہر کا کچھ حصہ معاف کر دینا درست ہے،شوہر قبول کرے یا نہ کرے۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت ردالمحتار میں ہے: ” (وصح حطھا) ۔۔۔۔۔ ولا بد من رضاها۔ ففي هبة الخلاصة خوفها بضرب حتى وهبت مهرها لم يصح لو قادرا على الضرب۔۔۔۔( لکلہ او بعضہ)  قیدہ فی البدائع بما اذا کان المھر دینا ای دراھم اودنانیر لان الحط فی الاعیان لایصح۔ بحریعنی  حق مہر معاف ہونے میں عورت کا راضی ہونا ضروری ہے، خلاصہ میں ہے کہ شوہر نے عورت کو مار پیٹ کرنے کی دھمکی  کے ذریعے خوف دلایا اور عورت نے مہر معاف کر دیا تو مہر معاف نہ ہوا جبکہ شوہر مار پیٹ کرنے پر قادر ہو ۔ ۔۔۔۔ کل یا بعض مہر ، اس مسئلے کو بدائع میں  درہم و دینار سے مقید کیا ہے کیونکہ عین چیز میں معافی درست نہیں، بحر۔ (ردالمحتار مع الدرالمختار، ج3، ص113 مطبوعہ بیروت، ملتقطاً)

   بہارِ شریعت میں ہے:” عورت کل مہر یا جز معاف کرے تو معاف ہو جائے گا بشرطیکہ شوہر نے انکار نہ کر دیا ہو۔(بہارِ شریعت، ج 02، ص 68، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی امجدیہ میں ہے:” جب (عورت نے مہر) برضا و رغبت معاف کردیا تو معاف ہوگیا، اور اب وہ مستحق نہ رہی۔“ (فتاوٰی  امجدیہ، ج02، ص 143، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   فتاوٰی فقیہ ملت میں ایک سوال کے جواب میں مذکور ہے:” (پوچھی گئی صورت میں) اگر واقعی زید نے اپنی بیوی سے مقرر شدہ مہر بلا اکراہِ شرعی معاف کروالیا تو معاف ہوگیا۔ اب لڑکی کے والدین کا زید سے مہر کا مطالبہ کرنا سراسر زیادتی ہے ۔“ (فتاوٰی فقیہ ملت، ج01،ص419، شبیر برادرز)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم