Ammi Ke Mamu Ki Beti Se Nikah Karne Ka Hukum

امی کے ماموں کی بیٹی سے نکاح کرنے کا حکم

مجیب: ابوحفص محمد عرفان مدنی عطاری

فتوی نمبر: WAT-1245

تاریخ اجراء:       13ربیع الثانی 1444 ھ/09نومبر2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا اپنی امی کے ماموں کی بیٹی سے نکاح ہوسکتا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اپنی امی کے ماموں کی بیٹی غیر محرم ہے لہذا اس  سے نکاح ہوسکتا ہے  جبکہ حرمت کی کوئی اور وجہ (رضاعت ومصاہرت وغیرہ )نہ ہو ۔تفصیل اس میں یہ ہے کہ :

   قرآن پاک میں اللہ تعالی نے ان عورتوں کوکہ جن سے نکاح حرام ہے شمارکرنے کے بعدفرمایاکہ ان کے علاوہ جوعورتیں ہیں وہ تمہارے لیے حلال ہیں ۔اوراپنی امی کے ماموں کی بیٹی ،حرام کردہ عورتوں میں شمارنہیں کی گئی ہے تواب ظاہرہے کہ یہ حلال کردہ عورتوں میں شامل ہے لہذااس سے نکاح ہوسکتاہے ۔ قرآن پاک میں ہے (وَ اُحِلَّ لَكُمْ مَّا وَرَآءَ ذٰلِكُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِكُمْ مُّحْصِنِیْنَ)ترجمہ کنزالعرفان : اور ان عورتوں کے علاوہ سب تمہیں حلال ہیں کہ تم انہیں اپنے مالوں کے ذریعے نکاح کرنے کو تلاش کرو۔(سورۃ النساء،پ05،آیت24)

   نیز اپنی امی کے ماموں کی بیٹی ،دراصل اپنی  امی کے ناناکی پوتی ہے ۔اوراپنی امی کانانا،اپنے لیے اصل بعیدہے اوراس کی پوتی ،اس کی فرع بعیدہے ۔اوراپنی اصل بعیدکی فرع بعیدحلال ہوتی ہے ۔

   فتاوی رضویہ میں ہے " اور اپنی اصل بعید کی فرع بعید حلال۔۔۔۔ اور اصل بعید کی فرع بعید جیسے انہی اشخاص مذکورہ آخر کی پوتیاں نواسیاں جو اپنی اصل قریب کی نوع نہ ہوں حلال ہیں۔ ۔۔۔۔ چچا، خالہ، ماموں، پھوپھی کی بیٹیاں اس لیے حلال ہیں کہ وہ اس کی اصل بعید کی فرع بعید ہیں یعنی دادا نانا کی پوتیاں نواسیاں جو اپنی اصل قریب سے نہیں۔" (فتاوی رضویہ،ج11،ص517،رضافاونڈیشن،لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم