ماں کے کزن سے نکاح

مجیب:مولانا مسعود علی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی علی اصغر صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر: web-46

تاریخ اجراء:22جمادی الاولٰی 1442ھ/07جنوری2021ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا ماں کی خالہ کے بیٹے سے نکاح ہو جاتا ہے ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    جی ہاں! اگر ممانعت کی کوئی اور وجہ (مثلاً دودھ کا رشتہ وغیرہ)نہ پائی جائے تو ماں کی خالہ کے بیٹے سے نکاح ہوسکتا ہے۔ اگرچہ ماں کے خالہ زاد بھائی کو ہمارے عرف میں ماموں کہا جاتا ہے لیکن یہ حقیقی ماموں نہیں،نہ ہی اس سے نکاح کرنے کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے۔ لہٰذا اس نکاح میں حرج نہیں۔ 

    جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے ان کا بیان کرنے کے بعد اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: وَاُحِلَّ لَکُمۡ مَّا وَرَآءَ ذٰلِکُمْترجمہ:اور اُن  کے سوا جو رہیں وہ تمہیں حلال ہیں۔

(پارہ5، سورۃ النساء، آیت 24)

    اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان علیہ الرحمہ سے سوال کیا گیا کہ ایک بہن کا لڑکا ہے اور دوسری بہن کی دختر کی لڑکی ہے، یہ نکاح جائز ہے یا نہیں؟ آپ علیہ الرحمہ نے جواباً ارشاد فرمایا: ”ہاں! جائز ہے۔“

 (فتاویٰ رضویہ، جلد 11، صفحہ 506، رضا فاؤنڈیشن لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ  عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم