Zuhr Ki Namaz Ka Afzal Waqt Kya Hai ?

ظہر کی نماز کس وقت پڑھنا افضل ہے؟

مجیب: مفتی محمد  قاسم عطاری

فتوی نمبر: FAM-099

تاریخ اجراء: 28 صفر المظفر5144ھ/15 ستمبر 2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ  ظہر کی نماز کس وقت پڑھنا سب سے افضل ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ظہر کی نماز سردیوں میں جلدی پڑھنا مستحب ہےاور گرمی کے دنوں میں تاخیر سے پڑھنا مستحب ہے۔اس میں کسی  معین وقت کی تعیین نہیں ہوسکتی کہ ہر دن ظہر  کی ابتدا و انتہا کا وقت بدلتا رہتا ہے۔البتہ یہاں تاخیر سے مراد یہ ہے کہ ظہر کے پورے وقت کو دو حصوں میں کردیا جائے اور پہلے حصہ کو چھوڑ کر دوسرے حصہ میں ظہر کی نماز ادا کی جائے، جیسے ظہر کے پورے وقت کا دورانیہ مثلاً: چار گھنٹے تیس منٹ ہو،تو اب اس کے دو حصہ کرلیے جائیں اور شروع کے دو گھنٹے پندرہ منٹ گزرنے کے بعد ظہر ادا کی جائے۔

   البتہ جس پر جماعت واجب ہو، اس کے لیے  کسی بھی نماز کومستحب وقت میں پڑھنے کے لیےجماعت کا ترک جائز نہیں ،لہذا اگر  گرمیوں میں بھی  ظہر کی جماعت اول وقت میں ادا کی جائے، جیسا کہ اب  عام طور پر  گرمی سردی دونوں میں  ہی ظہر کی جماعت اول وقت میں ہوا کرتی ہے،تو   ایسی صورت میں ظہر کوتاخیر سے پڑھنے کے لیے جماعت چھوڑنے کی اجازت ہرگز نہیں ہوگی کہ  مستحب کی خاطرواجب  کا ترک نہیں کیا جاسکتا۔

   فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ویستحب تاخیر الظھر فی الصیف و تعجیلہ فی الشتاء ھکذا فی الکافی ، سواء کان یصلی الظھر وحدہ أو بجماعۃ کذا فی شرح المجمع لابن ملک‘‘ترجمہ:گرمیوں میں ظہر کو تاخیر سے  اور سردیوں میں ظہر کو جلدی پڑھنا مستحب ہے ،اسی طرح کافی میں ہے،چاہے کوئی تنہا ظہر پڑھے یا جماعت کے ساتھ ،اسی طرح ابن ملک کی شرح مجمع میں ہے۔(الفتاوی الھندیۃ،جلد1،کتاب الصلاۃ،صفحہ58،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

   بہار شریعت میں ہے:’’جاڑوں  کی ظہر میں  جلدی مستحب ہے، گرمی کے دنوں  میں  تاخیر مستحب ہے، خواہ تنہا پڑھے یا جماعت کے ساتھ، ہاں  گرمیوں  میں  ظہر کی جماعت اوّل وقت میں  ہوتی ہو ،تو مستحب وقت کے لیے جماعت کا ترک جائز نہیں ، موسم ربیع جاڑوں  کے حکم میں  ہے اور خریف گرمیوں  کے حکم میں ہے۔‘‘(بھارِ شریعت،جلد1،حصہ3، صفحہ452،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   فتاوی رضویہ میں ہے:’’بحکمِ حدیث وفقہ ایامِ گرما میں تاخیرِ ظہر مستحب ومسنون ہے اور تاخیر کے یہ معنی کہ وقت کے دو۲ حصّے کیے جائیں نصف اوّل چھوڑ کر نصف ثانی میں پڑھیں۔۔۔(نیز) اوقات نماز کا آغاز وانجام ہر روز بدلتا ہے(لہذا) ایک وقت معین کا تعین ناممکن ہے۔‘‘(فتاوی رضویہ،جلد5صفحہ153-154،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم