Zohar, Maghrib Aur Isha Ke Farz Ke Baad Wali Sunnat Aur Nafl Ek Salam Ke Sath Parhna

ظہر ،مغرب ، عشاءکے فرضوں کے بعد والی سنت اور نفل ایک سلام کے ساتھ پڑھ سکتے ہیں ؟

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:FSD-9083

تاریخ اجراء:30صفر المظفر1446ھ/05ستمبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کےبارے میں کہ کیا ظہر کے فرضوں کے بعد سنتوں کی ادائیگی کرتے ہوئے اکٹھی چار رکعت کی نیت کر کے ادائیگی کر سکتے ہیں،  یعنی پہلی دو رکعتیں بطورِ سنت اور اگلی دو رکعتیں بطورِ  نفل اد ا ہو جائیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   ظہر کے فرضوں کے بعد اکٹھی چار رکعتوں کی یوں ادائیگی کرنا کہ پہلی دو رکعتیں سنتِ مؤکدہ اور بعد والی دو رکعتیں بطورِ نفل ادا ہو جائیں، یہ درست ہے۔ یوں ایک ہی سلام سے چار رکعتیں ادا کرنے سے سنتیں اورنفل  دونوں ادا ہو جائیں گے۔ یہی حکم مغرب اور عشاء کے بعد دو سنتوں اور نفلوں کو ملا کر پڑھنے کا بھی ہے، البتہ اِن تینوں صورتوں (ظہر، مغرب اور عشاء)میں  بہتر انداز وہی ہے کہ دو، دو کر کے جداگانہ سنتیں اور نوافل ادا کیے جائیں۔

   علامہ علاؤ الدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1088ھ/1677ء) لکھتے ہیں:هل ‌تحسب المؤكدة  من المستحب ويؤدى الكل بتسليمة واحدة؟ اختار الكمال: نعم“ ترجمہ:کیا مستحب رکعتوں کی ادائیگی کرتے ہوئے مؤکدہ رکعتیں بھی شمار کی جا سکتی ہیں، جبکہ اُن دونوں طرح کی رکعتوں کو ایک ہی سلام سے ادا کیا جائے؟ علامہ ابنِ ہُمَّامرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے اِس قول کو اختیار فرمایا کہ ہاں ایک ہی سلام سے ادا کی جا سکتی ہیں۔(درمختار مع ردالمحتار ، جلد04، باب الوتر والنوافل، صفحہ261، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   علامہ ابنِ ہُمَّامرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ کی عبارت کو تفصیلاً نقل کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1252ھ/ 1836ء) نے لکھا:ذكر الكمال في فتح القدير أنه وقع اختلاف بين أهل عصره في أن الأربع المستحبة هل هي أربع مستقلة غير ركعتي الراتبة أو أربع بهما؟ وعلى الثاني هل تؤدى معهما بتسليمة واحدة أو لا، فقال جماعة لا واختار هو أنه إذا صلى أربعا بتسليمة أو تسليمتين وقع عن السنة والمندوب، وحقق ذلك بما لا مزيد عليه، وأقره في شرح المنية والبحر والنهر“ ترجمہ:علامہ ابنِ ہُمَّامرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ”فتح القدیر“ میں لکھا کہ اُن کے ہم زمانہ علماء میں اِس مسئلہ کے متعلق اختلاف ہوا کہ (ظہر، مغرب اور عشاء کی نمازوں کے بعد) جو چار رکعتیں مستحب ہیں، کیا وہ سنتِ مؤکدہ کو شامل کیے بغیر از خود مستقلاً چار رکعتیں مستحب ہیں یا اُن میں سنتِ مؤکدہ بھی شامل ہیں؟ نیز دوسری صورت  یعنی سنت ِ مؤکدہ کو شامل ماننے کی صورت میں کیا یہ دونوں طرح (سنتِ مؤکدہ  اور نفل)کی نماز  ایک ہی سلام سے ادا ہو جائے گی یا نہیں؟ علماء کی ایک جماعت نے ارشاد فرمایا: ایک سلام سے ادا نہیں ہوں گی، جبکہ علامہ ابنِ ہُمَّامرَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ  نے  یہ حکم شرعی اختیار فرمایا کہ جب نمازی اِن چاروں رکعتوں کو ایک سلام یا دو سلام سے ادا کر لے گا، تو وہ سنتِ مؤکدہ اور  مستحب دونوں کی طرف سے ادا ہو جائیں گی۔صاحبِ فتح القدیر نے اِس مسئلہ کی یوں تحقیق فرمائی ہے کہ اب مزید تحقیق کی گنجائش باقی نہیں ۔ اِسی حکم شرعی کو ”شرح المنیۃ الکبیر“، ”بحر الرائق“ اور ”نھر الفائق“ میں برقرار رکھا گیا ہے۔(ردالمحتار مع درمختار ، جلد04، باب الوتر والنوافل، صفحہ261، مطبوعہ   دار الثقافۃ والتراث، دمشق)

   صدرالشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (وِصال:1367ھ/1947ء) سے سوال ہوا کہ زید عشاء کے فرض پڑھنے کے بعد دو سنتیں شروع کر چکا تھا، لیکن پھر  سلام پھیرے بغیر کھڑا ہو گیا اور یہ نیت کر لی کہ مزید دو نفل پڑھنے ہیں، وہ بھی اِسی میں شامل ہو جائیں، تو کیا اس کے سنت ونفل ادا ہو گئے؟ آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے جواب دیا:”بہتر یہ ہے کہ دو رکعت پر سلام پھیر دے،  اگر سلام نہ پھیرا اور دو رکعتیں اور ملا لیں،  جب بھی نماز ہو گئی، یعنی سنت مؤکدہ اور نفل دونوں ادا ہو گئی۔“(فتاویٰ امجدیہ مع حاشیۃ، جلد01،صفحہ234،مطبوعہ مکتبہ رضویہ،کراچی)

   آپ رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ نے ”بہارِ شریعت“ میں لکھا:”ظہر و مغرب و عشا کے بعد جو مستحب ہے،  اُس میں سنت مؤکدہ داخل ہے، مثلاً ظہر کے بعد چار پڑھیں تو مؤکدہ و مستحب دونوں ادا ہوگئیں اور یوں بھی ہوسکتا ہے کہ مؤکدہ و مستحب دونوں کو ایک سلام کے ساتھ ادا کرے،  یعنی چار رکعت پر سلام پھیرے۔(بھار شریعت، جلد01، حصہ04، صفحہ667، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم