Zohar Ki Namaz Padhte Hue Asar Ka Waqt Ho Jaye To Namaz Ka Hukum

ظہر کی نماز پڑھتے ہوئے عصر کا وقت داخل ہوجائے ، تو کیا ظہر کی نماز ہوجائے گی ؟

مجیب: مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر: Aqs-2232

تاریخ اجراء: 26 شعبان المعظم 1443  ھ/30 مارچ  2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارے میں کہ ابھی کچھ دن پہلے ظہر کا وقت 5 بج کر 2منٹ پر ختم ہونا تھا ۔ کسی وجہ سے مجھے نماز کے لیے تاخیر ہوگئی ، تو آخری وقت میں پڑھتے ہوئے میں نے پورے 5 بجے ظہر کے فرض شروع کیے اور اسی دوران ظہر کا وقت ختم ہوگیا کہ جب میں نے سلام پھیرا ، تو 5 بج کر 4 منٹ ہوچکے تھے ۔ رہنمائی فرما دیں کہ میری یہ نماز ہوگئی یا دوبارہ پڑھنی ہوگی ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں آپ کی وہ ظہر کی نماز درست ادا ہوگئی ہے ، دوبارہ پڑھنے کی حاجت نہیں ۔

   مسئلے کی تفصیل یہ ہے کہ فجر ، جمعہ اور عیدین کی نمازوں کے لیے وقت شرطِ بقاء کی حیثیت رکھتا ہے ، یعنی ان نمازوں کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہ اپنے وقت کے اندر ہی مکمل ہوں ، اگر ان نمازوں کے ختم ہونے سے پہلے ان کا وقت ختم ہوگیا ، تو یہ درست نہیں ہوں گی ، بلکہ فاسد ہوجائیں گی اور ان ( یعنی فجر ، جمعہ اور عیدین )کے علاوہ نمازوں کے لیے وقت صِرف شرطِ انعقاد کی حیثیت رکھتا ہے ، یعنی ان ( یعنی فجر ، جمعہ و عیدین کے علاوہ ) نمازوں کے لیے ان کا وقت صِرف شروع ہونا شرط ہے ، نماز کے آخر تک باقی رہنا ضروری نہیں ، لہٰذا پوچھی گئی صورت میں آپ نے ظہر کے وقت میں ہی شروع کی تھی ، اگرچہ ختم ہوتے وقت ظہر کا وقت نکل چکا تھا ، تو آپ کی وہ نماز درست ادا ہوگئی اور دوبارہ پڑھنے کی حاجت نہیں ہے ۔

   مجمع الانہر میں ہے : ’’ لو شرع في الوقتية عند الضيق ثم خرج الوقت في خلالها لم تفسد ‘‘ ترجمہ : اگر تنگ ( یعنی آخری ) وقت میں وقتی نماز شروع کی اور اسی دوران اس نماز کا وقت نکل گیا ، تو وہ نماز فاسد نہیں ہوگی ۔( مجمع الانھر ، کتاب الصلوٰۃ ، جلد 1 ، صفحہ 164 ، مطبوعہ بیروت )

   در مختار میں ہے : ’’ الأداء فعل الواجب في وقته وبالتحريمة فقط بالوقت يكون أداء عندنا ‘‘ ترجمہ : وقت کے اندر واجب کو بجالانا اداء کہلاتا ہے اور ہمارے نزدیک وقت کے اندر صرف تحریمہ کا ہونا ہی ادا ہے ۔( در مختار مع رد المحتار ، کتاب الصلوٰۃ ، باب قضاء الفوائت ، جلد 2 ، صفحہ 628 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   در مختار میں نماز کی شرطوں سے متعلق ہے : ’’ شروط الصلاة هي ثلاثة أنواع: شرط انعقاد: كنية، و تحريمة، ووقت، وخطبة وشروط دوام: كطهارة وستر عورة، واستقبال قبلة. وشرط بقاء: فلا يشترط فيه تقدم ولا مقارنة بابتداء الصلاة وهو القراءة ‘‘ ترجمہ : نماز کی شرطیں تین طرح کی ہیں : (1) شرطِ انعقاد ۔ جیسا کہ نیت ، تحریمہ ، وقت اور خطبہ (2) شرطِ دوام ۔ جیسا کہ طہارت ، ستر عورت ، قبلہ کی طرف منہ ہونا ۔ (3) شرطِ بقاء کہ جس میں نہ پہلے پایا جانا ضروری ہے ، نہ ہی نماز کی ابتداء کے ساتھ ملا ہوا ہونا ضروری ہے اور وہ قراءت ہے ۔

   اس کے تحت علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ لا يخفى أن هذه الأقسام متداخلة وبينها عموم و خصوص مطلق، فتجتمع في الطهارة والستر والاستقبال فإنها من حيث اشتراط وجودها في ابتداء الصلاة شرط انعقاد، ومن حيث اشتراط دوامها أيضا شرط دوام، ومن حيث اشتراط وجودها في حالة البقاء شرط بقاء، وتجتمع أيضا في الوقت بالنسبة إلى صلاة الصبح والجمعة والعيدين فإنه يشترط في ابتدائها وانتهائها وحالة البقاء، حتى لو خرج قبل تمامها بطلت. وينفرد شرط الانعقاد عن شرط الدوام وعن شرط البقاء في الوقت بالنسبة إلى بقية الصلوات فإنه شرط انعقاد فقط إذ لا يشترط دوامه ولا وجوده حالة البقاء ‘‘ ترجمہ : یہ بات مخفی نہیں کہ یہ تمام اقسام ایک دوسرے میں متداخل ہیں اور ان کے درمیان نسبت عموم و خصوص مطلق کی ہے ، تو طہارت ، سترِ عورت ، قبلہ کی طرف منہ کرنا ، نماز کے شروع میں ان کے پائے جانے کی وجہ سے یہ شرطِ انعقاد کہلاتی ہیں اور ان کا باقی رہنا بھی شرط ہے ، تو اس اعتبار سے شرطِ دوام بھی ہیں اور بقاء کی حالت میں ان کے پائے جانے کی وجہ سے شرطِ بقاء ہیں ۔اور یہ ساری وقت والی شرط میں بھی جمع ہوتی ہیں ، فجر ، جمعہ اور عیدین کی طرف نسبت کرتے ہوئے ، کیونکہ ان کی ابتداء ، انتہاء اور ان کے باقی رہنے کے لیے وقت کا ہونا شرط ہے ، یہاں تک کہ اگر ان نمازوں کے مکمل ہونے سے پہلے ان کا وقت نکل گیا ، تو یہ باطل ہوجائیں گی اور شرطِ انعقاد ، شرطِ دوام اور شرطِ بقاء سے باقی نمازوں کے اعتبار سے وقت والی شرط میں جدا ہوتی ہے ، کیونکہ باقی نمازوں میں صرف انعقاد کے لیے شرط ہے ، دوام یا باقی رہنے کی حالت میں شرط نہیں ہے ۔ ( رد المحتار علی الدر المختار ، کتاب الصلوٰۃ ، جلد 2 ، صفحہ 89 ، مطبوعہ کوئٹہ )

   نماز کو توڑنے والی چیزوں کا شمار کرتے ہوئے علامہ حسن بن عمار شرنبلالی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں : ’’ وطلوع الشمس في الفجر وزوالها في العيدين ودخول وقت العصر في الجمعة ‘‘ ترجمہ : فجر میں سورج کا طلوع ہونا ، عیدین میں زوال کے وقت کا داخل ( یعنی نصف النہار شرعی ) ہوجانا اور جمعہ کی نماز میں عصر کے وقت کا داخل ہونا ( ان نمازوں کو توڑ دیتا ہے ۔ )( نور الایضاح مع حاشیۃ الطحطاوی ، جلد 1 ، صفحہ 444 ، مطبوعہ مکتبہ غوثیہ ، کراچی )

   صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہارِ شریعت میں فرماتے ہیں : ’’ وقت میں اگر تحریمہ باندھ لیا ، تو نماز قضا نہ ہوئی ، بلکہ ادا ہے، مگر نمازِ فجر و جمعہ و عیدین کہ ان میں سلام سے پہلے بھی اگر وقت نکل گیا ، نماز جاتی رہی۔ ‘‘( بھارِ شریعت ، حصہ 4 ، جلد 1 ، صفحہ 701 ، مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم