Witr Me Dua e Qunoot Ke kuch Alfaz Bhoole Se Reh Gaye To Kya Hukum Hai

وتر میں دعائے قنوت کے کچھ الفاظ بھولے سے رہ جائیں تو کیا حکم ہے ؟

مجیب: ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12508

تاریخ اجراء:        04 ربیع الثانی 1444 ھ/31 اکتوبر 2022 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ میں نے دعائے قنوت یاد کی ہے، مگر جب میں وترکی نماز ادا کرتا ہوں، تو اکثر اس میں سے یہ الفاظ(و نسجد و الیک نسعی)بھول جاتا ہوں، میں بہت کوشش کرتا ہوں ،لیکن پھر بھی یہ الفاظ رہ جاتے ہیں۔معلوم یہ کرنا ہے کہ ان الفاظ کے بھول جانے پر سجدہ سہو کرنا ضروری ہے یا ویسے ہی نماز ہو جائے گی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   وتر میں دعائےقنوت پڑھنا واجب ہے اوراس سے مراد مطلق دعا ہے جو قلیل و کثیر سب کو شامل ہے،لہٰذا مشہور دعائے قنوت پڑھی لیکن اس کے کچھ الفاظ(و نسجد و الیک نسعی)پڑھنے سے رہ گئے ، تو اس صورت میں بھی واجب ادا ہوجائے گا اور سجدۂ سہو لازم ہوئے بغیر نماز درست ہوجائے گی،البتہ  دعائے قنوت یاد کرنے کی مزید کوشش جاری رکھی جائے تاکہ وتر میں مکمل دعائے قنوت پڑھنا ممکن ہوسکے کہ اگرچہ بعض دعائے قنوت سے بھی واجب ادا ہوجائے گا ،لیکن دعائے قنوت کو مکمل پڑھنا مستحب و مندوب ہے۔

   نماز کے واجبات بیان کرتے ہوئے علامہ علاؤالدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”وقراءۃ قنوت الوتر  وھو مطلق الدعاء“یعنی وتر میں قنوت پڑھنا واجب ہے اور وہ(قنوت)مطلق دعا ہے۔(الدر المختار، جلد2،صفحہ 200،مطبوعہ:کوئٹہ)

   مشہوردعائے قنوت میں سے بعض دعا بھی پڑھ لی،تو واجب ساقط ہوجائے گا۔ ردالمحتار میں ہے:”ان المراد بالقنوت هنا الدعاء الصادق على القليل والكثير“یعنی یہاں قنوت سے مراد وہ دعا ہے ،جو قلیل و کثیر پر صادق آئے۔(ردالمحتار، جلد2،صفحہ 540،مطبوعہ:کوئٹہ)

   علامہ ابنِ عابدین شامی رحمۃ اللہ علیہ ردالمحتار میں فرماتے ہیں:”ان کان قرا بعضہ حصل المقصود بہ لان بعض القنوت قنوت“یعنی اگرنمازی نے بعض دعائے قنوت پڑھ لی ،تو مقصود(یعنی واجب) حاصل ہوجائے گا ،کیونکہ بعض قنوت بھی قنوت ہے۔(ردالمحتار،جلد2،صفحہ541 ، مطبوعہ:کوئٹہ)

   علامہ ابراہیم بن مصطفی حلبی رحمۃ اللہ علیہ تحفۃ الاخیار میں اور شیخ علامہ احمد بن محمد طحطاوی رحمۃ اللہ علیہ حاشیہ طحطاوی میں فرماتے ہیں(واللفظ لطحطاوی):”ان القنوت لیس بمؤقت ولا مقدر یعنی فحیث قرأ بعض دعاء القنوت اتی بالواجب“یعنی قنوت کی کوئی خاص دعا معین نہیں اور نہ اس کی کوئی مقدار،یعنی جب بعض دعائے قنوت بھی پڑھ لی ،تو واجب کو ادا کرنے والا کہلائے گا۔(حاشیۃالطحطاوی علی الدر ، جلد2،صفحہ 400، مطبوعہ :بیروت)

   رد المحتار میں ہے:” وما أتى به منه كاف فی سقوط الواجب وتكميله مندوب “یعنی دعائے قنوت کا بعض حصہ بھی ادا کر لیا، تو سقوطِ واجب میں کافی ہوگااور دعائے قنوت کی تکمیل مستحب ہے۔(ردالمحتار، جلد2،صفحہ 540،مطبوعہ:کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم