Witr Ki Teesri Rakat Mein Teen Tasbeeh Ki Miqdaar Khamosh Rehne Ka Hukum

وتر کی تیسری رکعت میں تین تسبیح کی مقدار خاموش رہنے کا حکم

مجیب:مفتی ابومحمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12764

تاریخ اجراء:23شعبان المعظم1444ھ/16مارچ2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ زید وتر کی تیسری رکعت میں بھولے سے بغیر قراءت کیے تین تسبیح کی مقدار خاموش کھڑا رہا اس کے بعد اس نے رکوع کیا، پھر یاد آنے پر نماز کے آخر میں زید نے سجدہ سہو بھی کرلیا۔ معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا زید کی وہ نمازِ وتر ادا ہوگئی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    وتر کی ہر رکعت میں مطلقاً ایک آیت کا پڑھنا فرض ہے اور فرض چھوٹ جائے تو نماز ہی جاتی رہتی ہے۔ اس کی تلافی سجدہ سہو سے نہیں ہوسکتی۔ لہذا پوچھی گئی صورت میں فرض قراءت چھوڑنے کی وجہ سے زید کی وہ نمازِ وتر ادا نہیں ہوئی ۔ اب نئے سرے سے اس  نمازِ وتر کو ادا کرنا زید کے ذمے پر لازم ہے ۔

    وتر کی ہر رکعت میں قراءت فرض ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے: ”وأما محل القراءة ففي الفرائض الركعتان هكذا في المحيط ثنائيا كان أو ثلاثيا أو رباعيا وسواء كانتا أوليين أو أخريين أو مختلفتين، هكذا في شرح النقاية للشيخ أبي المكارم حتى لو لم يقرأ في واحدة منه أو قرأ في واحدة فقط فسدت صلاته، كذا في الشمني شرح النقاية وفي الوتر والنفل الركعات كلها، هكذا في المحيط۔ “ترجمہ: ”  محل قراءت فرائض کی  دو رکعات ہیں جیسا کہ محیط میں مذکور ہے خواہ وہ دو رکعتی فرض ہوں یا تین رکعتی یا پھر چار رکعتی  فرض ہوں، اب برابر ہے کہ یہ قراءت فرض کی پہلی دو رکعتوں میں کی جائے یا آخری دو رکعتوں میں کی جائے یا پھر مختلف رکعات میں کی جائیں۔  ایسا ہی شرح النقایہ میں شیخ ابو المکارم کے حوالے سے منقول ہے۔ یہاں تک کہ اگر نمازی نے ان رکعات میں سے کسی بھی ایک رکعت میں قراءت نہ کی یا پھر نمازی نے فقط ایک ہی رکعت میں قراءت کی تو اس کی وہ نماز فاسد ہوجائے گی، جیسا کہ شمنی میں شرح النقایہ کے حوالے سے مذکور ہے۔ نمازِ وتر اور نوافل کی ہر ہر رکعت میں قراء ت فرض ہے ایسا ہی محیط میں مذکور ہے۔“(فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلوٰۃ، ج 01، ص 69 ،   مطبوعہ پشاور)

    بہارِ شریعت میں ہے:” مطلقاً ایک آیت پڑھنا فرض کی دو رکعتوں میں اور وتر و نوافل کی ہر رکعت میں امام و منفردپر فرض ہے۔ “ (بہارِ شریعت، ج 01، ص512، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    فرض چھوٹ جائے تو اس کی تلافی سجدہ سہو سے نہیں ہوسکتی۔ جیسا کہ غنیۃ المستملی وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور  ہے: ”(لا یجب الا بترک الواجب)من واجبات الصلوۃ فلا یجب بترک الفرائض لان ترکھا لا ینجبر بسجود السھو بل ھو مفسد ان لم یتدارک فیعاد“یعنی نماز کے واجبات میں سے کسی واجب کو چھوڑنے کی صورت میں سجدہ سہو واجب ہوتا ہے پس فرائض کو چھوڑنے کی بنا پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوگا کہ فرائض کے چھوڑنے سے جو کمی آتی ہے اسے سہو کے دو سجدوں سے پورا نہیں کیا جاسکتا بلکہ اس غلطی کا تدارک نہ کیا گیاتو فرض چھوٹ جانا مفسد نماز ہے ، اس کا اعادہ کیا جائے گا۔(غنیۃ المستملی،  کتاب الصلاۃ،ص 393 ،   مطبوعہ کوئٹہ، ملخصاًو ملتقطاً)

    بہارِ شریعت میں ہے:” فرض ترک ہو جانے سے نماز جاتی رہتی ہے سجدۂ سہو سے اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔“ (بہارِ شریعت، ج 01، ص709، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم