Witr Ki Teesri Rakat Mein Sana Ka Hukum

وترکی تیسری رکعت میں ثناکاحکم

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر: WAT-1407

تاریخ اجراء:       18شعبان المعظم1444 ھ/29فروری2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   نماز وتر کی تیسری رکعت میں ثنا پڑھی جائے گی یا نہیں؟نیز اگر کسی کو معلوم نہ ہو،اور وہ وتر کی تیسری رکعت میں فاتحہ سے پہلے ثنا  پڑھ لے تو اب  نماز کا  کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   وتر کی صرف پہلی رکعت میں تکبیر کے بعد ثنا  پڑھیں گے ،تیسری رکعت کو ثنا  سے شروع نہیں کریں گے۔البتہ اگر کسی نے وتر کی تیسری رکعت میں فاتحہ سے پہلے  ثنا پڑھ لی ،تو چاہے  بھول کر پڑھی یا جان بوجھ کر،بہر صورت اس کی نماز ہوجائے گی،اور سجدہ سہو یا نماز کے اعادے کی ضرورت نہیں ہوگی۔

   اس کی وجہ یہ ہے کہ  وتر  کی تمام رکعات میں قراءت  تو  واجب ہے،لیکن قراءت کا قیام  سےمتصل ہونا  (یعنی قیام کرتے ہی قراءت شروع کردینا) واجب نہیں،نیز  سورہ فاتحہ سے پہلے   ثناکامحل  بھی ہے،لہذا     وتر کی تیسری رکعت میں فاتحہ سے پہلے  ثنا   پڑھنے سے کسی   واجب   کا ترک لازم نہیں آئے گا اور ثنا   اپنے محل میں ہی     واقع ہوگی ۔

   مذکورہ مسئلہ پر   ایک قریبی  نظیر’’  فاتحہ سے پہلے تشہد پڑھنے والا مسئلہ‘‘ ہے  جسے فقہائے کرام نے کتبِ فقہ میں بیان فرمایا ہے کہ اگر کوئی شخص  کسی  رکعت  میں  فاتحہ سے پہلے تشہد  پڑھ  لے تو  نماز درست ہوجائے گی کیونکہ تشہد ،ثنا     وتسبیح  پر مشتمل ہے،اور   فاتحہ سے پہلے ثنا     کا محل ہے ۔

   وتر کی  ہر رکعت میں قراءت  واجب ہے،جیسا کہ  بہار شریعت میں ہے:’’الحمد اور اس کے ساتھ سورت ملانا فرض کی دو پہلی رکعتوں میں اور نفل و وتر کی ہر رکعت میں واجب ہے۔‘‘(بھار شریعت،جلد1،حصہ3،صفحہ517،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   قراءت کا قیام کے ساتھ اتصال واجب نہیں، جیسا کہ سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے  ہیں:’’لانسلم وجوب القراءۃ متصلۃ بالقیام بل لو بدأ بالثناء کالأولی لم یترک واجبا‘‘ ترجمہ: قیام کے ساتھ متصل قراءت کے وجوب کو ہم تسلیم نہیں کرتے،بلکہ اگر کسی نے پہلی رکعت کی طرح، دوسری رکعت کی ابتداءبھی ثناء سے کر دی،تو کسی واجب کا ترک لازم نہیں آئے گا۔(جدالممتار،جلد3،صفحہ527،تحت  قولہ:1618، مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   فاتحہ سے پہلے تشہد پڑھنے سے متعلق، فتاوی عالمگیری میں ہے:’’ ولو تشھد فی قیامہ قبل قراءۃ الفاتحۃ فلاسھو علیہ وبعدھا یلزمہ السھو وھو الاصح لان بعد الفاتحۃ محل قراءۃ السورۃ فاذا تشھد فیہ فقد اخر الواجب وقبلھا محل الثناءکذا فی التبیین ‘‘ترجمہ: اوراگرکسی نےقیام میں سورہ فاتحہ سے پہلےتشہد پڑھ لیا،تو اس پر سجدہ سہو نہیں اور فاتحہ کے بعد پڑھے،توسجدہ سہو لازم ہو گا۔یہی اصح ہے،کیونکہ فاتحہ کے بعد قراءت کا محل ہے،توتشہدپڑھنے کی صورت میں واجب(یعنی فاتحہ کے ساتھ سورت ملانے)میں تاخیرہوگی اورفاتحہ سےپہلےثناء کامحل ہے،اسی طرح تبیین میں ہے۔      (الفتاوی الھندیۃ،ج 1، الباب في سجود السهو،ص 127،دار الکتب العلمیہ، بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم