Witr Ki Jamat Mein Teesri Rakat Mein Shamil Hai To Dua e Qunoot Ka Hukum?

وتر کی جماعت میں تیسری رکعت میں شامل ہوا ، تو دعائے قنوت کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Fsd-8254

تاریخ اجراء:21شعبان المعظم1444ھ/14مارچ2023

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلےکےبارے میں کہ رمضان المبارک میں وتر جماعت کے ساتھ ادا کیے جاتے ہیں ، تو اگر کوئی شخص وتر کی تیسری  رکعت میں جماعت کے ساتھ شریک ہواور اس نے امام کے ساتھ دعائےقنوت بھی پڑھ لی ہو، تووہ بقیہ نماز کس طرح ادا کرے گا؟ کیا اس میں دوبارہ دعائے قنوت پڑھے گا؟نیز اگر تیسری رکعت میں امام صاحب کے ساتھ رکوع میں شامل ہوا،تو ایسی صورت میں اس کے متعلق کیا حکم ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سوال میں مذکور دونوں صورتوں میں ہی مسبوق وتر کی بقیہ رکعتیں ادا کرتے ہوئے دعائے قنوت نہیں پڑھے گا۔

   تفصیل یہ ہے کہ مسبوق (جس  کی  امام کےساتھ   تمام یا بعض رکعتیں  رہ جائیں )کےبقیہ رکعتوں کو  ادا کرنے کے متعلق اُصول  یہ ہےکہ  وہ بقیہ رکعتیں ادا کرنے میں منفرد ہے، امام کےسلام پھیرنے کے بعدبقیہ رکعتیں ادا کرتے وقت قراءت کے حق میں پہلی اور تشہد کے حق میں دوسری رکعت ادا کرے گا،لہٰذا جس شخص کو وتر میں امام کے ساتھ آخری رکعت ملی، وہ امام کے سلام پھیرنے کے بعد کھڑا ہوکر پہلی رکعت کی طرح  ثنا،تعوّذ وتسمیہ پڑھے اور سورۂ  فاتحہ کے بعد سورت بھی ملائے اور تشہد کے اعتبار سے یہ اس کی دوسری رکعت ہے،اس لیے قعدہ میں بیٹھ کر تشہد پڑھے،اس کےبعد کھڑاہوگا،تو قراءت کےاعتبار سے یہ اس کی دوسری رکعت ہوگی،لہٰذا اس میں فاتحہ کے ساتھ سورت ملائے اور تشہد کے اعتبار سے یہ اس کی آخری رکعت ہوگی ، تو تشہد وغیرہ پڑھ کر نما زمکمل کرے۔

   دعائے قنوت نہ پڑھنے کی تفصیل: دعائے قنوت کے متعلق اُصول یہ ہے کہ وتر کی آخر ی رکعت میں دعائے قنوت پڑھ لینے کے بعد اس کی تکرار مشروع نہیں ہے، لہٰذا جب مسبوق نے امام کے ساتھ آخری رکعت میں دعائے قنوت پڑھ لی ،توجب بقیہ نماز ادا کرنے کےلیے کھڑا ہوگا، تو وہ اس کی وہ رکعتیں ہوں گی جو اس کو امام کے ساتھ نہیں ملیں، یعنی پہلی  اور دوسری  اور ان دونوں رکعتوں میں دعائے قنوت نہیں ہوتی ، بلکہ قنوت کا مقام آخری رکعت ہےاور وہ امام کے ساتھ پڑھ چکا ہے ، لہٰذا اب دوبارہ پڑھنا جائز نہیں ، یونہی جو شخص امام کے ساتھ تیسری رکعت کے رکوع میں مل گیا ، تو چونکہ رکوع میں شامل ہونے کی وجہ سےاسے تیسری رکعت مل گئی ،جس وجہ سے حکماً دعائے قنوت پڑھنا بھی شمار کر لیاگیا ، اس لیے ایسا شخص بھی وترکی بقیہ دو رکعتیں  اد اکرتے ہوئے  دعائے قنوت نہیں پڑھے گا۔

   مسبوق کے بقیہ رکعتیں ادا کرنے کے اُصول  کے بارے میں تنویرالابصار و درمختار میں ہے:’’(والمسبوق من سبقہ الامام  بھا أو ببعضھا وھو منفردفیما یقضیہ) حتی یثنی ویتعوذ ویقرأ   ویقضی  اول صلاتہ  فی حق  قراءۃ و آخرھا فی حق  تشھد،  فمدرک رکعۃ من غیر  فجر یاتی  برکعتین بفاتحۃ  وسورۃ  وتشھد بینھما“ترجمہ: اور مسبو ق کہ جس  کی  امام کےساتھ   تمام یا بعض رکعتیں  رہ جائیں وہ اپنی بقیہ رکعتیں ادا کرنے میں منفرد ہے،حتی کہ وہ ثنا اورتعوّذ پڑھے گا اور قراءت بھی کرے گا …… اور (امام کے سلام پھیرنے کے بعد)مسبوق قراءت کے حق میں پہلی رکعت اور تشہد کے حق میں دوسری رکعت ادا کرے گا ، لہٰذا فجر کے علاوہ نمازوں میں ایک رکعت  پانے والادورکعتوں کو سورۂ  فاتحہ اور سورت کے ساتھ ادا کرے  اوران کے درمیان تشہد  بھی  پڑھے ۔(الدرالمختار مع ردالمحتار،کتاب الصلاۃ ،جلد2،صفحہ 417  ،418،مطبوعہ کوئٹہ)

   اور وتر کی ایک رکعت پانے والے مسبوق کے متعلق حکم بیان کرتے ہوئے علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1088ھ/1677ء) لکھتےہیں:اما المسبوق فیقنت مع امامہ فقطترجمہ: بہرحال مسبوق تو وہ صرف امام کے ساتھ ہی قنوت پڑھےگا۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت مسئلہ کی علت  بیان کرتے ہوئے علامہ ابنِ عابدین شامی دِمِشقی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1252ھ/1836ء) لکھتےہیں:’’لانہ آخر صلٰوتہ ومایقضیہ اولھا حکما فی حق القرائۃ ومااشبھھا وھو القنوت واذا وقع قنوتہ فی موضعہ بیقین لایکررلان تکرارہ غیرمشروع، شرح المنیۃ ترجمہ:کیونکہ امام کے ساتھ اس کی نماز کاآخری حصہ ادا ہو چکا ہے اور جس کوقضاکررہاہے وہ قراءت  اور قراءت کے مشابہ چیز ،یعنی دعائے قنوت کے اعتبار سے حکماً نماز کا اول حصہ ہےاور جب قنوت امام کے ساتھ اپنے محل میں بالیقین اداہوچکی ہے،تو اس کا تکرار نہیں کیا جائے گا ، کیونکہ اس کا تکرار جائز نہیں ۔(ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ،باب الوتر ۔۔الخ، جلد2، صفحہ541، مطبوعہ  کوئٹہ)

   اسی طرح فتاوی عالمگیری میں ہے : المسبوق يقنت مع الامام ولا يقنت بعده كذا في المنية فإذا قنت مع الامام لا يقنت ثانيا فيما يقضي ترجمہ: مسبوق امام کے ساتھ ہی دعائے قنوت پڑھے گا ، اس کے بعد نہیں پڑھے گا، یونہی منیۃ المصلی میں ہے ، لہٰذا جب امام کے ساتھ دعائے قنوت پڑھ  چکا، تو اپنی بقیہ نماز پڑھتے ہوئےدوبارہ  نہیں پڑھے گا۔(الفتاوى الھندیہ، كتاب الصلاة، الباب الثامن ، جلد1،  صفحہ111،مطبوعہ کوئٹہ)

   وتر کی ایک رکعت پانے والے مسبوق کے متعلق کیے گئے ایک سوال کے جواب میں اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ (سالِ وفات:1340ھ/1921ء) لکھتے ہیں:اسی پراکتفا کرے، دوبارہ نہ پڑھے کہ تکرارِ قنوت مشروع نہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، جلد7،صفحہ543،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن،لاھور)

   جسے تیسری رکعت کا رکوع بھی مل گیا ، وہ بھی بقیہ  نماز  ادا کرتے  ہوئے ، دعائے قنوت نہیں پڑھے گا،کیونکہ رکوع ملنے سے وہ تیسری رکعت پانے والا ہو گیاہے ، چنانچہ علامہ  علاؤالدین حصکفی رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ لکھتےہیں: ‌ويصير ‌مدركا بإدراك ركوع الثالثة ترجمہ: وتر میں مسبوق تیسری رکعت کے رکوع میں ملنے کی وجہ سے دعائے قنوت پانے  والا ہوجائے گا۔(ردالمحتار مع  الدرالمختار، کتاب الصلاۃ ،باب الوتر ۔۔الخ، جلد2، صفحہ541، مطبوعہ  کوئٹہ)

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت نتیجہ بیان کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت امامِ اہلِ سنّت امام احمد رضا خان رَحْمَۃُاللہ تَعَالٰی عَلَیْہِ "جد الممتار "میں لکھتے ہیں: فلا يقنت فيما يقضي ،ھندیہ عن المحیط،وبالجملة إنما يأتي المسبوق بالقنوت فيما يقضيه إذا فاتته الركعات كلها، فيقنت في آخرهن وإلا لاترجمہ : تو  (امام کےساتھ وتر کے آخری رکوع میں ملنے والا) جب بقیہ  نماز ادا کرے گا ، تو دعائے قنوت نہیں پڑھے گا،یونہی ہندیہ میں محیط کے حوالے سے ہے۔ حاصل کلام یہ ہے کہ بقیہ نماز ادا کرتے ہوئے مسبوق صرف اُس صورت میں دعائے قنوت پڑھے گا، جب اس سے وتر کی تمام رکعتیں فوت ہوجائیں ، تو آخر میں قنوت پڑھے گا ، ورنہ نہیں ۔(جد الممتار ،کتاب الصلاۃ ،  باب الوتر ۔۔الخ،جلد 3 ، صفحہ 453 ، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ ، کراچی )

   فتاوی عالمگیری میں ہے :وإذا أدركه في الركعة الثالثة في الركوع ولم يقنت معه لم يقنت فيما يقضي كذا في المحيط ترجمہ:اورجب مقتدی نے امام کو وتر کی تیسری رکعت کے رکوع میں پایا اور اس کے ساتھ دعائے قنوت نہ  پڑھی ، تواپنی بقیہ نماز اد کرتے ہوئے دعائے قنوت نہیں پڑھے گا، یونہی محیطِ سرخسی میں ہے ۔(الفتاوى الھندیۃ، كتاب الصلاة، الباب الثامن في صلاة الوتر ، جلد1،  صفحہ111،مطبوعہ کوئٹہ)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم