Watan Ki Iqsam Aur Un Ke Ahkam Watan Sukna Ka Aitibar Hai Ya Nahi ?

وطن کی اقسام اور ان کے احکام؟ وطن سکنٰی کا اعتبار ہوگا یا نہیں؟

مجیب: ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

مصدق: مفتی محمد ہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:118

تاریخ اجراء: 04ربیع الثانی1444ھ/31اکتوبر2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ زید اپنے شہر گوجرانوالہ  سے   اولاً مریدکے  جائے گا جو کہ شرعی سفر نہیں بنتا ، مریدکے شہر  میں صرف دو دن  رہے گا، پھر وہاں سے آگے کراچی کے لیے روانہ ہوگا،پھر  کراچی میں 15 دن سے زیادہ قیام کرے گا، پھر وہاں سے ڈائریکٹ گوجرانوالہ  اپنے وطن اصلی میں آئے گا  اور راستے میں  مریدکے بھی آئے گا ،مگر واپسی پر اس کو مریدکے میں کوئی کام نہیں ہوگا ۔ اب معلوم یہ کرنا ہے کہ زید جیسے ہی  مریدکے میں شرعی سفر کی نیت کر  لے گا ،تو اسی وقت مسافر ہو جائے گا کہ مریدکے اس کا وطن اصلی نہیں یا سفر کے ارادے سے  جب مریدکے شہر کی آبادی سے باہر نکلے گا، تب سے نماز قصر کرنی شروع کرے گا ؟ اورواپسی میں جب مریدکے سے گزرے گا، تو   مریدکے کی آبادی میں پوری نماز پڑھے گا یا قصر؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اپنے سوال کے براہِ راست جواب سے پہلے کچھ اصول ذہن نشین فرما لیجئے تاکہ جواب کو سمجھنا آسان ہو جائے ۔

   (1)وطن کی تین قسمیں ہیں  : ( الف) وطن اصلی:اس سے مراد کسی شخص کی وہ جگہ ہے جہاں اس کی پیدائش ہے یااس کے گھرکے لوگ وہاں رہتے ہیں یاوہاں سَکُونت کرلی اوریہ ارادہ ہے کہ یہاں سے نہ جائے گا۔ جیسا کہ  صورت مسئولہ  میں زید کے  لیے شہر گوجرانوالہ   وطن اصلی ہے۔

   (ب):وطنِ اِقامت: اس سے مرادوہ جگہ ہے کہ جہاں  مسافر پندرہ دن یااس سے زیادہ ٹھہرنے کے ارادے سے قیام کرے ۔ جیسا کہ  صورت مسئولہ  میں زید کے  لیے شہرکراچی وطن اقامت  ہے۔

   (ج)وطن سکنٰی:اس سے مراد، جو وطن اصلی و اقامت نہیں۔  جیسا کہ وطن اصلی سے   نکل کر  مسافت شرعی سے کم فاصلے پر کہیں  رہنا یا  وطن اصلی کے علاوہ  کہیں پندرہ  دن  سے کم رہنے کی نیت سے ٹھہرنا  ، جیسا کہ صورت مسئولہ میں زید کے  لیے مریدکے اس کا وطن سکنٰی ہے ۔کثیر مشائخ نے وطن سکنٰی کا  اعتبار کیا ہے، البتہ محققین کی عبارات میں وطن کی بس پہلی دو قسمیں ہی مذکور ہیں، وطن سکنٰی کو الگ وطن شمار نہیں  کیا ۔ علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ نے محققین اور مشائخ متاخرین کی عبارات  میں تطبیق دیتے ہوئے فرمایا : کہ سفر کے تحقق  کے  بعد وطن سکنٰی کا بالاتفاق اعتبار نہیں، محققین کا کلام اسی پر محمول ہے ، سفر کے تحقق سے پہلے بالاتفاق وطن سکنٰی کا اعتبار ہے۔  عامۃ المشائخ کا کلام اسی پر محمول ہے۔ ہماری صورت میں بھی چونکہ سفر کے تحقق سے پہلے  مریدکے    زید کا وطن سکنٰی بنا ہے، اس لیے بالاتفاق اس کا اعتبار کیا جائے گا ۔

   (2) ہر وطن اپنی مثل یا اپنے  سے قوی  کے پائے جانے سے باطل ہو جاتا ہے۔ یعنی وطن اصلی اس وقت تک  باطل نہیں ہوتا،  جبکہ وطن اصلی سے ترک وطن کے ارادے سے دوسری جگہ کو وطن نہ بنا لےاور وطن اقامت، دوسری جگہ وطن اقامت بنانے، یا سفر شرعی کرنے یا  وطن اصلی میں آجانے سے باطل ہو جاتا ہے ،اور وطن سکنٰی دوسری جگہ  کو وطن سکنٰی بنانےیا وطن اقامت بنانے، یا سفر شرعی کرنے یا  وطن اصلی میں آ  جانے سے باطل ہو جاتا ہے ۔

   (3) تینوں اوطان میں   مقیم  سے مسافر بننے   کے  لیے شرعی سفر کے ارادے سے آبادی سے نکلنے کا اعتبار ہے، جب تک آبادی میں رہے گا مقیم ہے، تو مقیم ہی رہے گا ۔

    ان  اصولوں کی روشنی میں اب جواب ملاحظہ فرمائیے ۔

   دریافت کی گئی صورت میں زید  جاتے ہوئے  جب تک مریدکے   کی آبادی میں موجود رہے گا، پوری نماز پڑھے گا، کیونکہ جاتے ہوئے   مریدکے   اس کے لیے  سفر شرعی کے تحقق سے پہلے  ہی  وطن سکنٰی  ہوا، لہذایہ مریدکے میں جب تک رہے گا مقیم رہے گا ،پھر   جیسے ہی شرعی سفر کے ارادے سے مریدکے  کی آبادی سے نکلے گا، قصر کرے گا، کیونکہ  وطن سکنٰی  سے شرعی سفر کے ارادے سے نکلنے  پر وطن سکنٰی باطل ہو جاتا ہے ۔ پھر کراچی میں چونکہ پندرہ دن  ٹھہرنے کی نیت ہے، اس لیے جیسے ہی کراچی   کی آبادی میں  داخل ہوگا،تو پوری پڑھے گا ، کیونکہ کراچی اس کے لیے وطن اقامت ہے، جب تک وطن اقامت میں رہے گا پوری پڑھے گا ،پھر  کراچی سے واپسی پر کراچی کی آبادی سے نکلنے کے بعد سے اپنے شہر گوجرانوالہ کی آبادی میں داخل ہونے   تک  قصر کرے گا ، مریدکے سے جب گزرے گا، تو مریدکے میں بھی قصر کرے گا، کیونکہ وطن سکنٰی سفر شرعی سے باطل ہو  گیا تھا،  اب  مریدکے میں نہیں،  بلکہ وطن اصلی کی آبادی میں داخل ہونے پر  پوری نماز پڑھنے کا حکم ہوگا  ۔

   مبسوط سر خسی میں ہے :"وإن خرج الكوفي والخراساني يريدان قصر ابن هبيرة وهو على ليلتين من الكوفة صليا أربعا،  لأنهما لم يعزما على السفر من الكوفة فإن أدنى مدة السفر ثلاثة أيام فإن بدا لهما أن يقيما بالقصر خمسة عشر يوما ثم يمضيان إلى بغداد صليا أربعا،  لأن من القصر إلى بغداد دون مدة السفر فإن بدا لهما الرجوع من بغداد إلى الكوفة ويمران بالقصر فالخراساني يصلي أربعا والكوفي يصلي ركعتين۔۔۔ وأما وطن الكوفي بالقصر فكان وطن السكنى،  لأنه في فناء وطنه الأصلي ولا يكون له وطنا مستعارا في فناء وطنه الأصلي۔۔۔ووطن السكنى ينتقض بالخروج منه لا على قصد السفر فالتحق هو بعدما وصل إلى بغداد بمن لم يدخل القصر فإذا عزم على الرجوع إلى وطنه فقد أنشأ سفرا من بغداد إلى الكوفة ۔۔۔وإن لم يكونا نويا الإقامة بالقصر ولا ببغداد فإذا خرجا من بغداد إلى الكوفة صليا ركعتين،  لأن وطنهما بالقصر كان وطن السكنى، وقد انتقض بالخروج منه" یعنی اگر کوفی و خراسانی قصر ابن ہبيرة کے لیےنکلے جو کہ کوفہ سے دو رات کے فاصلے پر ہے، تو دونوں پوری نماز پڑھیں گے، کیونکہ  دونوں کوفہ سے سفر شرعی کے ارادے سے نہیں نکلے کہ سفر شرعی کم ازکم تین دن کی مسافت ہے ،پھر وہاں  ان  کا پندرہ دن رکنے کا ارادہ بن گیا اس کے بعد دونوں بغداد کے لیے نکلے،تو وہاں بھی  پوری پڑھیں،  کیونکہ قصر سے بغداد بھی مسافت شرعی سے کم فاصلے پر ہے، وہاں سے پھر کوفہ کے لیے لوٹے اور قصر سے گزرے ،تو خراسانی مقام قصر میں پوری پڑھے گا،جبکہ کوفی چار فرض کی جگہ دو رکعات پڑھے گا ،کیونکہ کوفی کے لیے قصر وطن سکنٰی تھا کہ وہ اس کے وطن اصلی کی فنا میں ہے اور وطن اصلی کی فنا میں وطن اقامت نہیں ہو سکتااور وطن سکنٰی  اس کی آبادی سے نکلنے پر باطل ہوگا، صرف قصد ِسفر سے باطل نہیں ہوگا  ،پس کوفی بغداد میں پہنچنے کے بعد اس شخص کی طرح ہو گیا جو کبھی بھی  قصر میں داخل ہی  نہ ہوا ہو ،پھر جب اپنے وطن کی طرف لوٹنےکا عزم کیا، تو اس نے بغداد سے کوفہ کی طرف سفر شرعی  شروع کیا ۔اور اگر دونوں نے ہی نہ قصر میں پندرہ دن اقامت کی نیت کی  اور نہ ہی بغداد میں تو  جب بغداد سے کوفہ کی طرف نکلیں گے ، دونوں ہی دو رکعات  پڑھیں گے، کیونکہ قصر ان کے لیے وطن سکنٰی تھا   اور وطن سکنٰی اس سے نکلنے کی وجہ سے باطل ہو گیا ۔ )مبسوط سرخسی،جلد 2، صفحہ 118،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی(

   وطن کی اقسام و تعریف اور باطل ہونے کے متعلق مبسوط للسرخسی میں ہے :" فالحاصل  أن الأوطان ثلاثة. وطن قرار ويسمى الوطن الأصلي وهو أنه إذا نشأ ببلدة أو تأهل بها توطن بها. ووطن مستعار وهو أن ينوي المسافر المقام في موضع خمسة عشر يوما وهو بعيد عن وطنه الأصلي ووطن سكنى وهو أن ينوي المسافر المقام في موضع أقل من خمسة عشر يوما أو خمسة عشر يوما وهو قريب من وطنه الأصلي، ثم الوطن الأصلي لا ينقضه إلا وطن أصلي مثله، والوطن المستعار ينقضه الوطن الأصلي ووطن مستعار مثله والسفر لا ينقضه وطن السكنى لأنه دونه، ووطن السكنى ينقضه كل شيء إلا الخروج منه لا على نية السفر. وقد قررنا هذا الأصل فيما أمليناه من شرح الزيادات فأكثر المسائل على هذا الأصل بخروجها ثمة‘‘ یعنی  : خلاصہ کلام یہ ہے کہ وطن کی تین اقسام ہیں ۔وطن قرار اس کو وطن اصلی بھی کہا جاتا ہے،یہ وہ  ہے   کہ جس شہر میں پیدا ہوا یا جس میں اس کےاہل ہیں اور اس  نے اسے وطن بنا لیا ۔ دوسری قسم وطن مستعار(وطن اقامت ) اس سے مراد ، جہاں  مسافر پندرہ دن ٹھہرنے  کی نیت کرے  اور وہ وطن اصلی سے دور ہو ۔ تیسری قسم وطن سکنٰی ۔ اس سے مراد کہ جہاں  مسافر پندرہ دن سے کم رہنے کی نیت کرے  یاپندرہ دن ہی  ٹھہرنا ہے، مگر وطن اصلی سے قریب ہے۔ پھر وطن اصلی باطل نہیں ہوتا، مگر اپنے ہی مثل وطن اصلی سے اور وطن اقامت کو وطن اصلی  ، وطن اقامت اور سفر شرعی باطل کر دیتے ہیں اور وطن سکنٰی  اس کو باطل نہیں  کرتا ، کیونکہ یہ اس سے کم ہے اور وطن سکنٰی کو سبھی باطل کر دیتے ہیں، سوائے اس  صورت   کے وطن سکنٰی سے نکلنا سفر کی نیت  کے بغیر ہو ، بے شک  اس ضابطے کو ہم نے شرح زیادات پر اپنی امالی میں ثابت کیا ہے ،پس اکثر مسائل وہاں کی آبادی سے نکلنے کے ساتھ  اس  ضابطے پر مبنی  ہیں ۔ )مبسوط سرخسی،جلد 1، صفحہ 250،مطبوعہ دار احیاء التراث العربی(

   تنویر الابصارودرمختار میں ہے : ’’(الوطن الأصلي يبطل بمثله لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه ولم يذكر وطن السكنى وهو ما نوى فيه أقل من نصف شهر لعدم فائدته، وما صوره الزيلعي رده في البحر۔ ملخصاً ‘‘یعنی وطن  اصلی اپنی مثل وطن کے ذریعے باطل ہوجائے گا۔ اپنی مثل کے علاوہ کسی اور سے وطنِ اصلی باطل نہیں ہوتا اور وطن اقامت اپنی مثل سے ، وطن اصلی سے اورسفر کرنے سے باطل ہو جاتا ہے اور اصول ان میں یہ ہے کہ چیز اپنی مثل سےاور اپنے سے اوپر کی چیزسے باطل ہوتی ہے ،اپنے سے کم شے سے باطل نہیں ہوتی۔اور وطن سکنٰی کا ماتن نے ذکر نہیں کیا، کیونکہ اس کے ذکر میں کوئی فائدہ نہیں اور وطن سکنٰی وہ جگہ ہے جہاں پندرہ دن سے کم رہنا ہو  ، امام زیلعی نے جو وطن سکنٰی کے معتبر ہونے پر جو صورت بیان کی ہے، بحر نے اس کا رد کیا ہے ۔ )تنویر الابصار و درمختار، جلد2،صفحہ 739 تا 741، مطبوعہ کوئٹہ(

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے:’’(قوله وما صوره الزيلعي) حيث قال: رجل خرج من مصره إلى قرية لحاجة ولم يقصد السفر ونوى أن يقيم فيها أقل من خمسة عشر يوما فإنه يتم فيها لأنه مقيم ثم خرج من القرية لا للسفر ثم بدا له أن يسافر قبل أن يدخل مصره وقبل أن يقيم ليلة في موضع آخر فسافر فإنه يقصر ولو مر بتلك القرية ودخلها أتم لأنه لايوجد ما يبطله مما هو فوقه أو مثله اهـ ح. (قوله رده في البحر) بأن السفر باق لم يوجد ما يبطله وهو مبطل لوطن السكنى على تقدير اعتباره لأن السفر يبطل وطن الإقامة فكيف لا يبطل وطن السكنى، فقوله لأنه لم يوجد ما يبطله ممنوع. قال ح: واعترضه شيخنا بأن المبطل لهما سفر مبتدأ منهما. وأما إذا خرج منهما إلى ما دون مدة السفر ثم أنشأ سفرا فإنهما لا يبطلان فإذا مر بهما أتم اهـ ونقل الخير الرملي مثله عن خط بعضهم وأقره. قال ح: وهو وجيه ۔۔۔فما صوره الزيلعي صحيح ومن تصويره علمت أنه لا بد أن يكون بين الوطن الأصلي وبين وطن السكنى أقل من مدة السفر وكذا بين وطن الإقامة ووطن السكنى. اهـ‘‘یعنی زیلعی نے  جو اس کی صورت بیان کی وہ یہ ہےکہ  ایک شخص اپنے شہر سے  سفر شرعی کے ارادے کے بغیر   کسی کام سے گاؤں کی طرف نکلا اور نیت یہ ہے کہ  اس گاؤں میں وہ پندرہ دن سے کم رہے گا، تو وہ اس میں پوری نماز پڑھے گا ،کیونکہ وہ اس میں مقیم ہے، پھر گاؤں سے سفر کے ارادے کے بغیر نکلا ، پھر اپنے شہر میں داخل ہونے، اور دوسری جگہ رات گزارنے  سے پہلے اس کا سفر کا ارادہ بن گیا، تو سفر میں وہ قصر کرے گا مگر جب اس بستی سے گزرے گا  اس میں داخل ہوگا، تو پوری پڑھے گا، کیونکہ وطن سکنی کو  باطل کرنے والی اس سے قوی یا مثل کوئی چیز نہیں پائی گئی ۔بحر نے اس کا رد یوں کیا کہ  سفر باقی ہے، سفر کو باطل کرنے والی کوئی صورت نہیں پائی گئی، حالانکہ سفر معتبر، وطن سکنی کو باطل کر دیتا ہے،  کیونکہ سفرشرعی وطن اقامت کو بھی  باطل کر دیتا ہے، تو   وطنِ سکنی کو کیونکر باطل نہیں  کرے گا؟اور زیلعی کا یہ کہنا کہ وطن سکنی کو باطل کرنے والی صورت نہیں  پائی گئی درست نہیں ۔حلبی نے فرمایا کہ ہمارے شیخ نے  بحر کی عبارت پر اعتراض کیا کہ وطن اقامت و سکنی کو سفرشرعی تب باطل کرتا ہے، جبکہ سفر شرعی کی ابتدا ان کی آبادی  سے کی جائے ، البتہ جب  ان کی آبادی سے سفر شرعی سے کم فاصلہ  کے لیے نکلا، پھر وہاں سے  سفر شرعی شروع کیا، تو اب یہ دونوں وطن باطل نہیں ہوں گے، جب ان سے گزرے گا، تو پوری پڑھے گا ۔علامہ خیر الدین رملی نے  ان مشائخ  میں سے بعض کی عبارت اس کی مثل  نقل کی  ہے  اور اس کو برقرار رکھا ہے۔ امام حلبی نے فرمایا کہ  یہ توجیہ قابل اعتبار ہے ، پس زیلعی نے جو صورت بیان کی ہے، صحیح ہے اور تو   ان کی صورت جان چکا کہ اس میں  ضروری ہے  : وطن اصلی اور وطن سکنی کے درمیان مدت سفر سے کم فاصلہ ہو،  اسی طرح وطن اقامت و وطن سکنی کے درمیان شرعی سفر سے کم فاصلہ ہو ۔

   مزید اسی میں آگے فرمایا:"وقد أيد في الظهيرية قول عامة المشائخ باعتبار وطن السكنى بأن الإمام السرخسي ذكر مسألة تدل عليه. وهي: كوفي خرج إلى القادسية لحاجة وبينهما دون مسيرة السفر ثم خرج منها إلى الحيرة يريد الشام حتى إذا كان قريبا منها بدا له الرجوع إلى القادسية ليحمل ثقله منها ويرتحل إلى الشام ولا يمر بالكوفة أتم حتى يرتحل من القادسية استحسانا لأنها كانت له وطن السكنى، ولم يظهر له بقصد الحيرة وطن سكنى آخر ما لم يدخلها فيبقى وطنه بالقادسية ولا ينتقض بهذا الخروج كما لو خرج منها لتشييع جنازة ونحوه۔ ملخصا " یعنی ظہیریہ میں  وطن سکنی کے اعتبار پر مشائخ کے قول کی تائید کی ہے  ، بایں طور کہ امام سرخسی نے ایک مسئلہ ذکر کیا ہے جو اس پر دلالت کرتا ہے وہ یہ ہے کہ کوفی کسی کام سے قادسیہ گیا،جبکہ دونوں کے درمیان شرعی سفر کی مسافت نہیں ہے، پھر وہاں سے حیرہ کی طرف نکلا   اور اس کا ارادہ شام جانے کا ہے  جب حیرہ کے قریب پہنچ گیا، تو  اسے قادسیہ لوٹنا پڑا،تاکہ وہاں سے اپنا سامان اٹھا لے پھر شام کا سفر اختیار کرے اور وہ کوفہ سے نہیں گزرا، تو اس صورت میں استحساناً یہ حکم ہے کہ قادسیہ میں پوری نماز پڑھے حتی کہ  وہ قادسیہ  سے شام کے سفر کے لیے نکل جائے،کیونکہ قادسیہ اس کا وطن سکنی تھا  اور حیرہ کو ابھی وطن سکنی بنا نا نہیں پایا گیا کہ اس میں داخل  نہیں ہوا  تھا،تو قادسیہ ہی اس کا وطن سکنی باقی رہا،  محض اس نکلنے سے وطن سکنی باطل نہیں ہوا۔جیسا کہ سفر شرعی کے ارادے کے بغیر جنازہ وغیرہ کے لیے نکلنے پر حکم ہے ۔ )رد المحتار،جلد 2، صفحہ 741،742،مطبوعہ کوئٹہ(

   اس سے آگے دونوں مسائل میں تطبیق بیان کرتے ہوئے علامہ شامی  رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:’’اقول : ويمكن أن يوفق بين القولين بأن وطن السكنى إن كان اتخذه بعد تحقق السفر لم يعتبر اتفاقا وإلا اعتبر اتفاقا، فإذا دخل المسافر بلدة ونوى أن يقيم بها يوما مثلاً  ثم خرج منها ثم رجع إليها قصر فيها كما كان يقصر قبل خروجه، وعليه يحمل كلام المحققين لقول البحر إنهم قالوا لا فائدة فيه لأنه يبقى فيه مسافرا على حاله فصار وجوده كعدمه اهـ   فقولهم لأنه يبقى فيه مسافرا على حاله ظاهر في أنه كان مسافرا قبل اتخاذه وطنا، وما قاله عامة المشائخ محمول على ما إذا اتخذه وطنا قبل سفره كما صوره الزيلعي والإمام السرخسي، هذا ما ظهر لي واللہ  أعلم " میں کہتا ہوں کہ دونوں اقوال میں یوں تطبیق ممکن ہے کہ وطن سکنی اگرسفر کے تحقق کے بعد بنایا، تو  بالاتفاق معتبر نہیں، وگرنہ معتبر ہے، پس جب کوئی شخص کسی شہر میں داخل ہو اور اس میں مثلاً  ایک دن رہنے کی نیت ہے ،پھر اس سے نکلا پھر واپس آ گیا،تواس میں قصر کرے گا۔جیسا کہ نکلنے سے پہلے قصر کر رہا تھا ، اسی پر محققین کا کلام محمول کیا جائے،  کیونکہ بحر میں  ہے :محققین نے فرمایا: وطن سکنی کو بیان کرنے میں فائدہ نہیں، کیونکہ اس میں وہ اپنی سابقہ حالت پر مسافر ہی رہے گا ،تو اس کا وجود اس کے عدم کی طرح ہی ہے ۔ ان کا فرمان: ”سابقہ حالت پر مسافر رہے گاسے ظاہر ہے کہ  وطن سکنی بنانے سے پہلے وہ مسافر تھا اور جو عامۃ المشائخ نے فرمایا وہ  محمول ہے اس صورت پر جب اس نے سفر ِشرعی  متحقق ہونےسے پہلے وطن سکنی اختیار  کیا ہو۔جیساکہ امام زیلعی اور سرخسی نے  اس کی صورت بیان کی ہے ، یہ میرے  لئے ظاہر ہوا ہے۔واللہ تعالی اعلم ۔)  رد المحتار،جلد 2،صفحہ 742،مطبوعہ کوئٹہ(

   جد الممتار میں ہے :" قوله: قبل أن يقيم ليلة في موضع آخر، فسافر": قيد به،  لأن لا يوجد وطن سكنى غير الأول فيبطل الأول به،  لأنه مثله"  یعنی سفردوسری جگہ رات گزارنے سے پہلے کیا ،یہ قید اس لیے لگائی تاکہ پہلی جگہ کے علاوہ کو وطن سکنی بنانا نہ پایا جائے  کہ جس سے پہلا وطن سکنی باطل ہو جائے، کیونکہ   یہ وطن سکنی ہونے میں پہلے کی مثل ہوگا۔)جد الممتار،جلد 03، صفحہ 572۔573،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی(

   سفر کے تحقق کے لئے آبادی سے نکلنے کا اعتبار ہے، اس سے متعلق امام بخاری نے باب باندھا ہے: " باب يقصر إذا خرج من موضعه وخرج علي بن أبي طالب  رضی اللہ عنہ : فقصر وهو يرى البيوت، فلما رجع قيل له هذه الكوفة قال: لا حتى ندخلها" یعنی باب اس بارے میں  کہ  قصر تب کرے جب اپنی اقامت کی جگہ سے نکل جائے ،اور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نکلے،  تو آپ نے قصر کی  حالانکہ آپ گھروں کو دیکھ رہے تھے پھر جب آپ لوٹے،  تو کہا گیا وہ کوفہ ہے، فرمایا نہیں ،یہاں  تک کہ ہم اس میں داخل ہو جائیں۔

   اس باب  کے تحت امام بخاری حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت  لائے  کہ آپ  رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں  : " صليت الظهر مع رسول اللہ  صلى اللہ  عليه وسلم بالمدينة أربعا و بذي الحليفة ركعتين"یعنی میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں  نماز ظہر چار رکعت پڑھی پھر ذوالحلیفۃ میں دو رکعت پڑھی۔)الصحیح البخاری،صفحہ205،مطبوعہ دار الکتب العلمیہ بیروت (

   مذکورہ حدیث صحیح بے شمار کتب احادیث میں موجود اور ہمارے متعدد فقہاء نے  مذکور مسئلہ پر بطور  دلیل ذکر کی ہے۔ جیسا کہ  مرقاۃ ، وعمدۃ القاری ، عنایہ ، بنایہ ، منحۃ السلوک وغیرہ    میں اس حدیث کو بطور دلیل ذکر کیا ۔ منحۃ السلوک شرح تحفۃ الملوک میں ہے :" حتى لو كان أمامه دار أو داران: لا يقصر، لما روي عن أنس بن مالك رضي اللہ  عنه قال: "صليت مع رسول اللہ  صلى اللہ  عليه وسلم الظهر بالمدينة أربعاً والعصر بذي الحليفة ركعتين" رواه أبو داؤد ومسلم.قوله: (حتى يرجع إليها) أي إلى بيوت مصره، فإذا رجع إليها ودخل فيها: أتم" یعنی یہاں تک کہ شہر کی آبادی کے ایک دو گھر ہی ابھی باقی ہوں،تو  بھی قصر نہ کرے،  کیونکہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت کیا گیا ہے  آپ فرماتے ہیں کہ میں  نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ مدینہ میں  نماز ظہر چار رکعت پڑھی پھر ذوالحلیفۃ میں دو رکعت پڑھی۔ابوداؤداور مسلم نے اسےروایت کیا ، یہاں تک کہ  اپنے شہر کی آبادی  میں لوٹ آئے  آبادی میں داخل ہو جائے، تو پوری نماز پڑھے۔) منحۃ السلوک  فی شرح تحفۃ الملوک، صفحہ 184، مطبوعہ وزارة الأوقاف والشؤون الإسلامية - قطر(

    وطنِ اصلی کی طرح وطنِ اقامت کی آبادی سے نکلنا سفرکے تحقق  کے لئے معتبر ہے اس پر بطور دلیل مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اثر موجود ہے کہ  آپ بصرہ میں مقیم تھے پھر جب سفر کے ارادہ سے نکلے مگر بصرہ کی متصل آبادی سے  ابھی  باہر نہیں ہوئے تھے، تو آپ نے پوری نماز پڑھی اور فرمایا اگر  ہم ان بانس کی  لکڑی کے بنے ہوئے گھروں سے آگے چلے جاتے، تو قصر نماز پڑھتے ۔

    چنانچہ بنایہ میں ہے :" (وفيه الأثر) ش: أي فيما ذكرنا من أن حكم السفر بمفارقة بيوت المصر، الأثر عن الصحابة رضي اللہ عنهم، قال السغناقي: وهو المأثور عن علي رضي اللہ  عنه  وتبعه الأكمل وغيره في هذا. قلت: رواه ابن أبي شيبة في "مصنفه" حدثنا عباد بن العوام عن داؤد بن أبي هند عن أبي حرب بن أبي الأسود الديلمي أن عليا  رضي اللہ  عنه  خرج من السفر فصلى الظهر أربعا، ثم قال: إنا لو جاوزنا هذا الخص لصلينا ركعتين، ورواه عبد الرزاق في "مصنفه" أخبرنا سفيان الثوري عن داؤد بن أبي هند عن أبي حرب بن أبي الأسود أن عليا رضي اللہ  عنه لما خرج من البصرة، رای خصا، فقال: لو جاوزنا هذا الخص لصلينا ركعتين، فقلت: وما الخص؟ قال: بيت من قصب" یعنی شہر کے گھروں سے  نکلنے پر سفر کا حکم ہوگا،اس میں صحابہ سے آثار موجود ہیں   سغناقی نے فرمایا :یہ مولا علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے منقول ہے  ۔ اکمل وغیرہ نے اس میں ماتن کی پیروی کی ہے۔ میں کہتا ہوں ابن ابی شیبہ نے اپنی مصنف میں روایت کیا ہے  کہ عباد بن عوام نے داؤد بن ابی ہند سے انہوں نے ابو حرب بن ابو الاسود  دیلمی سے روایت کیا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سفر کے لیے نکلے، تو آپ نے ظہر چار رکعت پڑھی پھر فرمایا: اگر ہم  اس خص سے آگے چلے جاتے، تو ضرور دو رکعت پڑھتے ۔ عبد الرزاق نے اپنی مصنف میں اس کو روایت کیا کہ ہمیں سفیان ثوری نے خبر دی، داؤد بن ابی ہند سے انہوں نے ابو حرب بن ابو الاسود سے روایت کیا کہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ جب بصرہ سے  نکلے، تو خص  پر پہنچے تو فرمایا اگر ہم  اس خص سے آگے چلے جاتے، تو ضرور دو رکعت پڑھتے ۔ میں نے عرض کی یہ خص کیا ہے فرمایا بانس کی  لکڑی سے بنا ہوا گھر۔ )البنایۃ ،جلد 03، صفحہ 255، مطبوعہ ملتان(

   کتاب الاصل میں امام محمد رحمۃ  اللہ علیہ کاسوال اوراس پرامام اعظم رحمۃ  اللہ علیہ کا جواب کچھ یوں مذکورہے :"قلت أرأيت رجلا من أهل خراسان قدم الكوفة وأراد المقام هناك شهرا فأتم الصلاة ثم خرج منها إلى الحيرة فوطن نفسه بها على إقامة خمسة عشر يوما فأتم الصلاة ثم خرج من الحيرة يريد خراسان فمر بالكوفة فأدركته الصلاة كم يصلي قال يصلي ركعتين "ترجمہ:میں نے عرض کیا:آپ کی کیا رائے ہے، اس خراسانی سے متعلق جوکوفہ آیا اور وہاں ایک مہینا رہنے کا ارادہ کیا پس نماز پوری پڑھی، پھروہاں سے حیرہ کی طرف نکلا اوروہاں پندرہ دن رہنے کی نیت سے اسےاپناوطن بنایاپس نماز پوری پڑھی ،پھرحیرہ سے خراسان کے ارادے سے نکلااورکوفہ سے گزرا،تونمازکاوقت ہوگیا، ایسی صورت میں یہ کتنی رکعتیں اداکرے گا؟امام صاحب رحمۃ  اللہ علیہ نے فرمایا:دورکعتیں ادا کرے  گا۔)کتاب الاصل،باب صلوۃ المسافر،جلد 1، صفحہ 263،مطبوعہ بیروت(

   فتح القدیرمیں اس مسئلے کی وضاحت کرتے ہوئے یہ صراحت فرمائی کہ جیسے ہی حیرہ سے نکلا،تومسافرہوگیا، لہذا خراسان پہنچنے تک قصر ادا کرے گا اور حیرہ اس  کا وطن اقامت تھا  جس  کی آبادی سے نکلنے کا اعتبار کیا گیا ہے۔چنانچہ فرمایا:"خراساني قدم الكوفة ونوى الإقامة بها شهرا ثم خرج منها إلى الحيرة ونوى المقام بها خمسة عشر يوما ثم خرج من الحيرة يريد العود إلى خراسان ومر بالكوفة فإنه يصلي ركعتين،  لأن وطنه بالكوفة كان وطن إقامة، وقد انتقض بوطنه بالحيرة،  لأنه وطن إقامة مثله، وكذا وطنه بالحيرة انتقض بالسفر لأنه وطن إقامة فكما خرج من الحيرة على قصد خراسان صار مسافرا ولا وطن له في موضع فيصلي ركعتين حتى يدخل خراسان"ترجمہ:کوئی خراسانی کوفہ آیااوروہاں ایک مہینا رہنے کی نیت کی پھروہاں سے حیرہ کی طرف نکلااورحیرہ میں پندرہ دن رہنے کی نیت کی ،پھرحیرہ سے خراسان واپس جانے کے ارادے سے نکلا اورکوفہ سے اس کاگزرہوا،تووہ دورکعتیں اداکرے گا،کیونکہ کوفہ میں اس کاوطن،وطن اقامت تھااوروہ حیرہ میں وطن بنانے کی وجہ سے ختم ہوگیا،کیونکہ حیرہ کا وطن،کوفہ کی طرح وطن اقامت ہے اوراسی طرح  اس کاحیرہ کاوطن سفرکی وجہ سے ٹوٹ گیا،کیونکہ یہ وطن اقامت ہے پس جیسے ہی خراسان کے ارادے سے حیرہ سے نکلا،تووہ مسافر ہوگیااورکسی مقام پراس کاوطن نہیں ہے، توخراسان میں داخل ہونے تک دورکعتیں اداکرے گا۔ )فتح القدیر ،جلد 02،صفحہ 42،مطبوعہ کوئٹہ (

    اسی طرح سفرسے واپسی پرایک شہرکارہنے والا اپنے قریب کے دوسرےشہر میں پہنچے،تو ابھی سفرختم نہیں ہوگا جب تک اپنے شہرنہ چلاجائے، لہذا نمازمیں قصر کرے گا۔چنانچہ کتاب الاصل میں امام محمد رحمۃ  اللہ علیہ کاسوال اوراس پرامام اعظم رحمۃ  اللہ علیہ کاجواب کچھ یوں مذکور ہے: "قلت أرأيت رجلا أقبل من الجبل يريد الحيرة وأهله بها فمر بالكوفة فحضرت الصلاة أيصلي صلاة مسافر أو صلاة مقيم قال بل يصلي صلاة مسافر ما لم يدخل الحيرة أو يوطن نفسه على إقامة خمسة عشر يوما بالكوفة"ترجمہ:میں نے عرض کیا:آپ کی کیا رائے ہے اس شخص کے متعلق کہ جو حیرہ کے ارادے سے جبل سے آیا اور اس کے گھروالے بھی حیرہ میں ہی ہیں (یعنی اس کاوطن اصلی حیرہ ہے)پس کوفہ سے اس کاگزر ہوا، تو نماز کا وقت ہوگیا،اس صورت میں وہ مسافروالی نمازپڑھے گایامقیم والی ،توامام صاحب رحمۃ  اللہ علیہ نے فرمایا:بلکہ جب تک حیرہ میں داخل نہ ہوجائے یا کوفہ میں پندرہ دن رہنے کی نیت سے اسے اپناوطن نہ بنالے اس وقت تک مسافرکی نمازہی اداکرے گا۔) کتاب الاصل، باب صلوۃ المسافر،جلد 1، صفحہ 233،مطبوعہ بیروت(

   اوریہ قاعدہ ہے کہ جس طرح سفرکے تحقق کے لیے   اپنے شہر یا وطن اقامت  والے شہر کی آبادی سے نکلناضروری ہے اسی طرح سفرختم ہونے کے لیےجیسے ہی  اپنے شہر یا جہاں اقامت شرعی کا ارادہ ہے اس شہر کی آبادی میں داخل ہوگاتوسفرختم ہوجائے گا۔

    چنانچہ بنایہ میں ہے :"(لأن الإقامة تتعلق بدخولها) ش: أي الإقامة من السفر تتعلق بدخول بيوت المصر م: (فيتعلق السفر بالخروج عنها) ش: أي عن بيوت المصر، لأن الشيء إذا تعلق بالشيء تعلق ضده بضده، وحكم الإقامة وهو الإتمام، لما تعلق هذا الموضع تعلق حكم السفر بالمجاوزة عنه"ترجمہ:کیونکہ سفرکے بعدمقیم ہونے کاتعلق شہر کے گھروں میں داخل ہونے کے ساتھ ہے، توسفرکاتعلق شہرکے گھروں سے نکلنے کے ساتھ ہوگا،کیونکہ جب ایک چیزدوسری چیزکے ساتھ متعلق ہو،تواس کی  ضددوسری چیز کی ضدکے ساتھ متعلق ہوگی اوراقامت کاحکم جوکہ نمازمکمل کرناہے ،جب وہ اس جگہ کے ساتھ متعلق ہے توسفرکاحکم اس سے تجاوزکرنے کے ساتھ متعلق ہوگا۔)البنایۃ شرح الھدایۃ،باب صلاۃ المسافر،جلد 03،صفحہ 254۔255،مطبوعہ ملتان(

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم