Watan e Iqamat Kin Cheezon Se Batil Hota Hai ?

وطن اقامت کن چیزوں سے باطل ہو تا ہے؟

مجیب:ابوصدیق محمد ابوبکر عطاری

مصدق: مفتی محمدہاشم خان عطاری

فتوی نمبر:108

تاریخ اجراء: 12شوال المکرم1442ھ/24مئی2021ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ زید ایک شہر میں ملازمت کرتا ہے ، جس میں اس نے اپنا گھر بھی لیا ہوا ہے اور اپنے بیوی بچوں کو بھی لے کر جاتا اور رہتا ہے ، لیکن اس شہر میں اس کا مستقل رہنے کا ذہن نہیں ،جب تک ملازمت ہے تب تک وہاں آنا جانا ہوگا ملازمت ختم ہو گئی تو وہاں نہیں رہے گا۔ اب معلوم یہ کرنا ہے   کہ وہ شہر زید کےآبائی  دیہات ( جہاں سے ترک وطن کے ارادے سے دوسری جگہ نہیں گیا ) سے 92 کلو میٹر سے زیادہ فاصلے پر ہے، تو کیا یہ اس شہر میں قصر کرے گا یا وہ شہر اس کا وطن اصلی بن چکا؟ اور کیا آبائی دیہات ابھی بھی اس کا وطن اصلی ہے ؟ یہاں  جب آتا ہے تو یہاں قصر کرے گا یا پوری پڑھے گا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جس شہرمیں زید ملازمت کررہا ہے وہ اس  کے لئے وطن اصلی نہیں ہے،وہاں جب بھی جائے اور پندرہ دن ٹھہرنے کا ارادہ نہ ہو، تو قصر کرے گا، البتہ جب پندرہ دن وہاں رہنے کی  نیت ہو گی ،تووہ وطن اقامت ہوگااور زیدپوری نماز پڑھے گا اور وطن اقامت سفر شرعی ،اور دوسری جگہ  وطن اقامت بنانے اور وطن اصلی سے باطل ہو جاتا ہے، لہٰذا وہ وطن اقامت تب تک کے لئے ہی ہوگا جب تک اسے باطل کرنے والی کوئی صورت نہیں پائی جاتی ۔

   اور زید کا آبائی دیہات ابھی بھی اس کے لئے وطن اصلی ہے،یہاں جب بھی آئے گا، پوری نماز پڑھے گا، کیونکہ وطن اصلی کو باطل کرنے والی کوئی صورت نہیں پائی گی،دوسری جگہ گھر لینے اور اسے وطن اقامت بنانے سے وطن اصلی باطل نہیں ہوتا ، وطن اصلی باطل  تب ہوتا ہے ، جبکہ کوئی شخص پہلی جگہ سے ترک ِوطن کا ارادہ کر کے اہل و عیال کے ساتھ دوسری جگہ منتقل ہو جائے (یعنی وطن بنا لے)تو پہلی جگہ اس کے لئے وطن اصلی نہیں رہتی اگرچہ اس میں مکان و زمین باقی ہو۔

   سیدی اعلی حضرت ،امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن فرماتے ہیں:’’ جبکہ وہ دوسری جگہ نہ اس کا مولد ہے نہ وہاں اس نے شادی کی نہ اسے اپنا وطن بنالیا یعنی یہ عزم نہ کرلیا کہ اب یہیں رہوں گا اور یہاں کی سکونت نہ چھوڑوں گا، بلکہ وہاں کا قیام صرف عارضی بر بنائے تعلق تجارت یا نوکری ہے، تو وہ جگہ وطن اصلی نہ ہوئی اگر چہ وہاں بضرورت معلومہ قیام زیادہ اگر چہ وہاں برائے چندے یا تا حاجت اقامت بعض یا کل اہل وعیال کو بھی لے جائے کہ بہر حال یہ قیام بیک وجہ خاص سے ہے نہ مستقل ومستقر ، تو جب وہاں سفر سے آئے گا جب تک ۱۵ دن کی نیت نہ کرے گا قصر ہی پڑھے گا کہ وطن اقامت سفر کرنے سے باطل ہوجاتا ہے۔‘‘ (فتاوی رضویہ ،جلد8،صفحہ 271،مطبوعہ رضا فاؤنڈیشن لاہور)

   وطن اصلی اپنی مثل وطن ہی سے باطل ہو تا ہے یہ مسئلہ  کئی متون ، شروح اور فتاویٰ میں مذکور ہے، اختصاراً چند ایک حوالے ملاحظہ فرمائیے۔

   چنانچہ تنویر الابصارو درمختار میں ہے : ’’(الوطن الأصلي يبطل بمثله) إذا لم يبق له بالأول أهل، فلو بقي لم يبطل بل يتم فيهما (لا غير و) يبطل (وطن الإقامة بمثله و) بالوطن (الأصلي و) بإنشاء (السفر) والأصل أن الشيء يبطل بمثله، وبما فوقه لا بما دونه۔ملخصاً ‘‘ یعنی وطن اصلی اپنے مثل وطن کے ذریعے باطل ہوجائے گا،جبکہ پہلی جگہ میں اس کے اہل و عیال باقی نہ رہیں، پس اگر پہلی جگہ اہل و عیال باقی ہوں، تو وطن باطل نہیں ہوگا ، بلکہ دونوں جگہ پوری نماز پڑھے گا ۔اپنی مثل کے علاوہ کسی اور سے وطنِ اصلی باطل نہیں ہوتا اور وطن اقامت اپنی مثل سے ، وطن اصلی سے اورسفر کرنے سے باطل ہو جاتا ہے اور اصول ان میں یہ ہے کہ چیز اپنی مثل سےاور اپنے سے اوپر کی چیزسے باطل ہوتی ہے اپنے سے کم شے سے باطل نہیں ہوتی۔)تنویر الابصار و در مختار، جلد 2، صفحہ  739۔741، مطبوعہ کوئٹہ(

   اس کے تحت رد المحتار میں ہے:”(قوله يبطل بمثله) سواء كان بينهما مسيرة سفر أولاً، ولا خلاف في ذلك كما في المحيط ۔قهستاني، وقيد بقوله بمثله لأنه لو انتقل منه قاصدا غيره ثم بدا له أن يتوطن في مكان آخر فمر بالأول أتم لأنه لم يتوطن غيره نهر‘‘ یعنی وطن اصلی اپنے مثل وطن کے ذریعے باطل ہوجائے گا، خواہ ان دونوں جگہوں کے درمیان مسافت سفر ہو یا نہ ہواور اس مسئلے میں کسی کا اختلاف نہیں ہے ،جیسا کہ محیط میں ہے قہستانی۔ماتن نے’’ بمثلہ‘‘ کی قید لگائی، کیونکہ اگر کوئی دوسری جگہ جانے کے ارادے سے منتقل ہوا ،پھر اس کے لیے ظاہر ہوا کہ وہ کسی اور جگہ وطن بنائے ،پھروہ پہلی جگہ سے گزرا تو پوری نماز پڑھے گا، کیونکہ اس نے ابھی اس کے علاوہ جگہ کو وطن نہیں بنایا ۔ نہر الفائق۔ )رد المحتار،جلد 2، صفحہ  739،مطبوعہ کوئٹہ(

   بحر الرائق  میں ہے :’’(        قوله  و      يبطل   الوطن     الأصلي     بمثله   لا      السفر     و     وطن     الإقامة بمثله والسفر والأصلي) ، لأن الشيء يبطل بما هو مثله لا بما هو دونه فلا يصلح مبطلا له ۔۔۔ وقيد بقوله بمثله، لأنه لو باع داره ونقل عياله وخرج يريد أن يتوطن بلدة أخرى ثم بدا له أن لا يتوطن ما قصده أولا ويتوطن بلدة غيرها فمر ببلده الأول فإنه يصلي أربعا، لأنه لم يتوطن غيره ‘‘ یعنی( ماتن صاحبِ کنز نے کہا :وطن اصلی اپنے مثل وطن کے ذریعے باطل ہو گا،سفر سے باطل نہیں ہوگا اور وطن اقامت اپنی مثل سے ،سفر سے اور وطن اصلی سے باطل ہو جاتا ہے )کیونکہ کوئی چیز اپنی مثل سے ہی باطل ہو تی ہے، اپنے سے کم چیز سے باطل نہیں ہوتی کہ کم چیز اسے باطل کرنے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتی۔اورماتن نے”بمثلہ“ ( یعنی اسی کی مثل وطن کے ذریعے) کی قید لگائی، کیونکہ اگر کسی نے اپنا گھر بیچ دیا اور اپنے عیال کو منتقل کیا اور یہ ارادہ کر کے نکلا کہ دوسرے شہر کو وطن بنائے گا،پھر اس کے لیے ظاہر ہوا کہ  پہلے جس جگہ وطن بنانے کا قصد کیا تھا،وہاں وطن نہیں بنائےگا، بلکہ اس کے علاوہ دوسرے شہر میں وطن بنائے گا، پھر وہ اپنے پہلے شہر سے گزرا تو وہ پوری نماز پڑھے گا، کیونکہ ابھی اس نے اس کے علاوہ کوئی اور وطن نہیں بنایا ۔ )البحر الرائق،جلد 2، صفحہ  239، مطبوعہ کوئٹہ(

   فتح القدیر میں ہے:’’ والأصلي لا ينتقض إلا بالانتقال عنه واستيطان آخر كما قلنا لا بالسفر ولا بوطن الإقامة‘‘یعنی وطن اصلی دوسری جگہ منتقل ہونے اور دوسری جگہ کو وطن بنا لینے سے ہی ٹوٹے گا،جیسا کہ ہم نے کہا سفر اور وطن اقامت کے ساتھ نہیں ٹوٹے گا۔)رد المحتار،جلد 2،صفحہ  739،مطبوعہ کوئٹہ(

   رد المحتار میں شرح  منیہ سےمنقول ہے :’’لو كان له أهل ببلدتين فأيتهما دخلها صار مقيما، فإن ماتت زوجته في إحداهما وبقي له فيها دور وعقار قيل لا يبقى وطنا له إذ المعتبر الأهل دون الدار ۔۔۔وقيل تبقى‘‘اگر کسی شخص کے گھر والے دو شہروں میں ہوں تو دونوں میں سے جس میں بھی داخل ہو گا مقیم ہو جائے گا اگر ایک میں اس کی بیوی کا انتقال ہو گیا اور اس شہر میں اس کا مکان اور زمین باقی ہے، تو ایک قول یہ ہے کہ وہ اس کے لئے وطن نہیں رہا کہ  اعتبارمکان کا نہیں، اہل کا ہے اور دوسرا قول یہ ہے کہ وہ وطن رہے گا۔)رد المحتار،جلد 2،صفحہ  739،مطبوعہ کوئٹہ(

   رد المحتارکی مذکورہ عبارت کے جز ”وقيل تبقى“کے تحت امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمٰن جد الممتار میں فرماتے ہیں:’’و الیہ اشار محمد فی الکتاب کذا فی الزاھدی ھندیہ أقول:يظهر للعبد الضعيف أن نقل الأهل والمتاع يكون على وجهين: أحدهما: أن ينقل على عزم ترك التوطن هاهنا، والآخر: لا على ذلك، فعلى الأول لا يبقى الوطن وطنا وإن بقي له فيه دور وعقار، وعلى الثاني يبقى فلیکن المحمل للقولین ،و بمثل ھذا یجری الکلام فی موت الزوجۃ فافھم ‘‘یعنی(وطن رہے گا)اسی طرف امام محمد رحمۃ  اللہ علیہنے کتاب میں اشارہ فرمایا ہے،جیسا کہ زاہدی میں ہے،عالمگیری۔ میں کہتا ہوں ضعیف بندے کے لیے یہ ظاہر ہوا کہ اہل و متاع کو نقل کرنے کی دو صورتیں ہوں گی: (1)اس نے وہاں سے ترک وطن کے ارادے پر اہل و متاع کو منتقل کیا (2)ترک وطن کا ارادہ نہیں ہے ۔پس پہلی صورت میں وطن وطنِ اصلی نہیں رہے گا اگرچہ اس میں گھر اور زمین باقی ہو اور دوسری صورت میں وطن اصلی باقی رہے گا۔پس چاہیے کہ دونوں اقوال کے لیے ایک محمل ہو ، اور اسی کی مثل کلام بیوی کی موت میں جاری ہو گا پس تو سمجھ جا ۔(جد الممتار،جلد 03، صفحہ  572، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم