Waqt Ki Tangi Ke Bais Peshab Waghera Ki Shiddat Ke Saath Parhi Gayi Namaz Wajib ul Adha Hogi?

وقت کی تنگی کے باعث پیشاب وغیرہ کی شدت کے ساتھ پڑھی گئی نماز واجب الاعادہ ہوگی؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-12816

تاریخ اجراء:13شوال المکرم1444ھ/04مئی2023ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں  کہ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب "اسلامی بہنوں کی نماز "کے صفحہ نمبر 119 اور 120 پر مذکور ہے: ”(مکروہِ تحریمی نمبر 4 تا 6)   پیشاب /پاخانہ/ ریح کی شدت ہونا ۔ اگر نماز شروع کرنے سے پہلے ہی شدت ہو تو وقت میں وسعت ہونے کی صورت میں نماز شروع کرنا ہی ممنوع و گناہ ہے ۔ہاں اگر ایسا ہے کہ فراغت اور وضو کے بعد نماز کا وقت ختم ہو جائے گا تو نماز پڑھ لیجئے ۔“

   آپ سے معلوم یہ کرنا ہے  کہ وقت کی تنگی کے سبب جب اس حالت میں نماز ادا کر لی جائے تو  کیا اس نماز کا اعادہ بھی واجب ہوگا؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جی ہاں! فقہائے کرام کی تصریحات کے مطابق سوال میں جو صورت بیان کی گئی ہے اس موقع پر  ادا کی گئی نماز بھی مکروہِ تحریمی واجب الاعادہ ہوگی۔

   تنویر الابصار مع الدر المختار کے مکروہاتِ صلاۃ میں ہے :”(صلاتہ مع مدافعۃ الاخبثین) او احدھما(اوالریح) “ یعنی پاخانہ اور  پیشاب یا ان میں سے ایک یا ریح کی شدت کے وقت نماز  ادا کرنا مکروہ (تحریمی) ہے۔ (تنویر الابصار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 492، مطبوعہ کوئٹہ)

   حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار میں اس سے متعلق مذکور ہے:”تکرہ مع مدافعۃ الاخبثین او الریح ۔۔۔۔۔ و الظاھر ان الکراھۃ تحریمیۃ لتجویزھم رفض الصلاۃ لاجلھا و لا ترفض للمکروہ تنزیھاً۔“یعنی پاخانہ، پیشاب یا ریح کی شدت کے ساتھ ادا کی گئی نماز مکروہ ہے۔۔۔۔۔ ظاہر یہی ہے کہ یہاں کراہت سے  کراہتِ تحریمی مراد ہے، کیونکہ فقہاء اس کی  وجہ سے نماز کو توڑنے کی اجازت دیتے ہیں جبکہ کسی مکروہ تنزیہی فعل کے لیے نماز کو نہیں توڑا جاتا۔(حاشیۃ الطحطاوی علی الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 276، مطبوعہ کوئٹہ، ملتقطاً)

   وقت کی تنگی کے باعث ریح وغیرہ کی شدت کے ساتھ ادا کی گئی نماز بھی کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا ہوگی۔ جیسا کہ فتاوٰی عالمگیری، تبیین الحقائق، بنایہ شرح ہدایہ، حاشیہ طحطاوی علی مراقی الفلاح  وغیرہ کتبِ فقہیہ میں کچھ یوں مذکور ہے:والنظم للاول ويكره ۔۔۔ أن يدخل في الصلاة وهو يدافع الأخبثين وإن شغله قطعها وكذا الريح وإن مضى عليها أجزأه وقد أساء ولو ضاق الوقت بحيث لو اشتغل بالوضوء يفوته يصلي ؛ لأن الأداء مع الكراهة أولى من القضاء یعنی پاخانہ یا پیشاب کی شدت کی حالت میں نماز میں داخل ہونا مکروہِ تحریمی ہے اگر نماز شروع کردی تو اسے توڑدے۔  یہی حکم ریح کا بھی ہے، پس اگر اس نے نماز جاری رکھی تو نماز ادا ہوجائے گی لیکن اس نے برا کیا۔ اور اگر وقت تنگ ہو اس طرح کہ وضو کرکے نماز میں مشغول ہونے کی صورت میں وہ نماز فوت  ہونے کا خدشہ  ہو تو اب اسی حالت میں نماز پڑھ لے،  کیونکہ نماز کو کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا کرنا اسے قضا کردینے سے بہتر ہے۔ (فتاوٰی عالمگیری، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 107،مطبوعہ پشاور)

   بہارِ شریعت میں ہے :”شدت کا پاخانہ پیشاب معلوم ہوتے وقت،یا  غلبہ ریاح کے وقت نماز پڑھنا، مکروہ تحریمی ہے ۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص625، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   ہر وہ نماز جو کراہتِ تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی اس کا اعادہ واجب ہوتا ہے۔ جیسا کہ درمختار میں ہے :”کل صلاۃ ادیت مع کراھۃ التحریمیۃ تجب اعادتھا   ہر وہ نماز جو کراہت تحریمی کے ساتھ ادا کی گئی ہو  اس کا اعادہ واجب ہے۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت ردالمحتار میں ہے:الظاهر انه يشمل نحو مدافعة الاخبثين مما لم يوجب سجودا اصلاًظاہر ہے کہ وجوب اعادہ کاحکم پیشاب پاخانہ روکنے جیسی صورتوں کو بھی شامل ہے جن میں سجدہ سہو بالکل واجب نہیں ہوتا ۔ (درِ مختارمع رد المحتار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 182، مطبوعہ کوئٹہ)

   بہار ِ شریعت میں ہے :” جس بات سے دل بٹے اور دفع کر سکتا ہو اسے بے دفع کيے ہر نماز مکروہ ہے مثلاً پاخانے یا پیشاب یا ریاح کا غلبہ ہو مگر جب وقت جاتا ہو تو پڑھ لے پھر پھیرے۔(بہارِ شریعت، ج 01، ص457، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم