Tayammum Karne Wala Ya Masah Karne Wala Imam Ban Sakta Hai Kya ?

تیمم کرنے والا  یا مسح کرنے والا امام بن سکتا ہے؟

مجیب: مفتی ابو محمد علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-12904

تاریخ اجراء: 23ذو الحجۃ الحرام1444 ھ/12جولائی 2023   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیان شرع متین  اس مسئلے کے بارے میں کہ کیا تیمم کرنے والا یا مسح کرنے والا شخص وضو کرنے والوں کی امامت کرواسکتا ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   جامع   شرائط امام نے اگر شرعی اجازت کے ساتھ تیمم کیا ہو (مثلاً بیماری کے سبب وہ پانی کے استعمال پر قادر نہ ہو وغیرہ) تو اس صورت میں وہ وضو کرنے والوں کی امامت کرواسکتا ہے کہ امام کا تیمم سے ہونا امامت درست ہونے سے مانع نہیں۔ یونہی اگر امام نے موزوں پر یا پٹی پر مسح کیا ہو، تو وہ وضو کرنے والوں کی امامت کرواسکتا ہے۔

   تیمم کرنے والا وضو کرنے والوں کی امامت کرواسکتا ہے۔ چنانچہ فتاوٰی عالمگیری وغیرہ  کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے: ”ويجوز أن يؤم المتيمم المتوضئين عند أبي حنيفة وأبي يوسف رحمهما اللہ تعالى، هكذا في الهداية“ یعنی امام اعظم ابوحنیفہ اورامام ابویوسف علیہماالرحمۃ کے نزدیک تیمم کرنے والا، وضوکرنے والوں کی امامت کرسکتاہے، اسی طرح ہدایہ میں ہے۔(فتاوٰی  عالمگیری، کتاب الصلاۃ،  ج 01، ص 84،  مطبوعہ بیروت)

   اللباب میں  ہے:”(ويجوز أن يؤم المتيمم المتوضئين) لأنه طهارة مطلقة، ولهذا لا يتقدر بقدر الحاجة (والماسح على الخفين الغاسلين) لأن الخف مانع سراية الحدث إلى القدم یعنی تیمم کرنے والے کا وضو کرنے والوں کی امامت کروانا ، جائز ہے کہ تیمم طہارتِ مطلقہ ہے، اسی وجہ سے یہ بقدر حاجت مقدر نہیں۔ اور موزوں پر مسح کرنے والا پاؤں دھونے والے کی امامت کرواسکتا ہے کہ موزہ حدث کو قدم کی طرف سرایت کرنے سے مانع ہے ۔(اللباب في شرح الكتاب، کتاب الطھارہ،  ج 01، ص 82،  المكتبة العلميہ، بيروت)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے: ”ہاں جسے بالفعل ایسا مرض موجود ہو،جس میں نہانا نقصان دے گا یا نہانے میں کسی مرض کے پیدا ہوجانے کا خوف ہے اوریہ نقصان وخوف اپنے تجربے سے معلوم ہوں یا طبیب حاذق مسلمان غیرفاسق کے بتائے سے، تو اُس وقت اُسے تیمم سے نماز جائز ہوگی اور اب اس کے پیچھے سب مقتدیوں کی نماز صحیح ہے، غرض امام کا تیمم اور مقتدیوں کا پانی سے طہارت سے ہونا صحتِ امامت میں خلل انداز نہیں، ہاں امام نے تیمم ہی بے اجازت شرع کیا ہو،تو آپ ہی نہ اس کی ہوگی، نہ اُس کے پیچھے اوروں کی۔تنویر میں ہے:’’صح اقتداء متوضیئ بمتیمم‘‘ بحر الرائق میں ہے:’’ترجیح المذھب بفعل عمروبن العاص رضی ﷲ تعالٰی عنہ حین صلی بقومہ بالتیمم لخوف البرد من غسل الجنابۃ وھم متوضؤن ولم یأمرھم علیہ الصلٰوۃ والسلام بالاعادۃ حین علم ۔ (فتاوٰی ضویہ،ج06،ص639،638،رضافاونڈیشن،لاھور)

   اعضائے وضو دھونے والے کا موزوں پر یا پٹی پر مسح کرنے والے شخص کی اقتدا کرنا ، جائز ہے۔ چنانچہ فتاوٰی  عالمگیری وغیرہ کتبِ فقہیہ میں مذکور ہے:”یجوز اقتداء الغاسل بماسح الخف و بالماسح علی الجبیرۃ یعنی اعضائے وضو دھونے والے کا موزوں اور  پٹی پر مسح کرنے والے شخص کی اقتدا کر نا شرعاً جائز ہے۔(فتاوٰی  عالمگیری، کتاب الصلاۃ،  ج 01، ص 84،  مطبوعہ بیروت)

   بہارِ شریعت میں ہے:” جس نے وضو کیا ہے ،تیمم والے کی اور پاؤں دھونے والا موزہ پر مسح کرنے والے کی اور اعضائے وضو کا دھونے والا پٹی پر مسح کرنے والے کی، اقتدا کر سکتا ہے۔(بھارِ شریعت، ج 01، ص573، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم