Taraweeh Parhane Ki Ujrat Aur Heelay Ka Hukum

تراویح پڑھانےکی اجرت اورحیلے کا حکم

مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری

فتوی نمبر:Pin-6995

تاریخ اجراء:27ذوالقعدۃ الحرام1443ھ27جون2022ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتےہیں علمائےدین ومفتیانِ شرعِ متین اس مسئلے کے بارےمیں  کہ

   (1)تراویح  پڑھانے کی اجرت لینا کیسا ہے؟

   (2) تراویح پر اجرت کا جواز اگر کسی حیلے سے نکلتا ہو، تو اس پر میرا سوال یہ ہے کہ  کسی کام میں  شرعاً حیلہ کرنے کی اجازت ہوسکتی ہے، لیکن میرا کہنا یہ ہے کہ حیلہ ایسے امور میں ہو سکتا ہے کہ جن   کے بارے میں قرآن و حدیث  میں ممانعت کا کوئی حکم نہیں آیا، جس بارے میں ممانعت کا  کوئی واضح  حکم  قرآن یا حدیث میں آ گیا، تو اس میں حیلہ کرنا درست نہیں ہے، لہٰذا حیلے کے ذریعے تراویح پر اجرت کا جواز کیسے ہو سکتا ہے، جبکہ قرآن پڑھنے  پر اجرت لینے کے بارے میں قرآن و حدیث   میں ممانعت موجود ہے۔اس بارے میں آپ کیا فرماتے ہیں؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   (1)اصل یہ ہے کہ طاعات پر اجرت لینا اور دینا مطلقاً نا جائزہے، سوائے ان چند چیزوں کے جن پردینی ضرورت و مجبوری کی بنا پر متاخرین نے اجارہ کرنے کی اجازت دی ہے ،جیسے قرآن پاک، فقہ اور دینی علوم کی تعلیم ، اذان و امامت وغیرہ کی اجرت لینا ضرورت کی بنا پر جائز ہے  اور وعظ کی اجرت لینے کی بھی فی زمانہ اجازت ہے، لہذا صورت مسئولہ میں صرف تراویح پڑھانے کی اجرت لینا اور دینا جائز نہیں ،اسی طرح جہاں تراویح پڑھانے کی اجرت لینا اور دینا طے نہیں ہوا ، لیکن پتا ہے کہ ختم قرآن پر کچھ نہ کچھ روپے پیسے یاکسی اور صورت میں ضرور دیا جائےگا، وہ بھی ناجائز و گناہ ہے، البتہ اگر کوئی چاہتا ہے کہ گناہ بھی نہ ہو اور اجرت بھی جائز ہو جائے،  تواس کی درج ذیل دو  صورتیں ہو سکتی ہیں:

   (۱) ایک صورت یہ ہے کہ تراویح پڑھانے والا واضح طور پر کہہ دے کہ کچھ نہیں لوں گا یا کمیٹی والے کہہ دیں کہ کچھ نہیں دیں گے ، پھر ختم قرآن پر کچھ نہ کچھ خدمت کر دیں ، تو یہ جائز ہے۔

   (۲)دوسری صورت یہ ہے کہ تراویح پڑھانے والے کو دو یا تین گھنٹے کے لیے اجیر رکھ لیا جائے اور اتنی دیر کے لیے اس کی کوئی تنخواہ مقرر کر دی جائے، مثلاً: مسجد انتظامیہ تراویح پڑھانے والے سے کہے کہ ہم نے آپ کوایک ماہ کے لیے روزانہ تین گھنٹے فلاں وقت سے فلاں وقت تک کے لیے اتنی اجرت پر اجیر رکھا،  اس میں ہم جوچاہیں آپ کے منصب کے مطابق آپ سے کام لیں گے، وہ کہے میں نے قبول کیا۔ اب تراویح پڑھانے والا اتنی دیر کے لیے ان کا اجیر ہو گیا، اس کے بعد وہ اس حافظ صاحب کو تراویح کی نماز پڑھانے کا کہہ دیں ،تو اس صورت میں اجرت لینا دینا جائز ہو جائے گا۔

   اللہ تعالیٰ آیاتِ قرآنی کے بدلے میں دنیا کا قلیل و حقیر مال لینے کے متعلق ارشاد فرماتا ہے:﴿ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا ز  وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ ترجمہ کنزالایمان:’’میری آیتوں کے بدلے تھوڑے دام نہ لو اور مجھی سے ڈرو۔‘‘(پارہ1،سورۃ البقرۃ،آیت41)

   مفتی احمد یار خان نعیمی علیہ الرحمۃ اس آیت مبارکہ کے تحت  فرماتے ہیں:’’میری آیتیں اس معمولی قیمت پر بیچ نہ ڈالو۔خیال رہے کہ دنیا اور دنیوی چیزیں کیسی بھی ہوں آخرت کے مقابلے میں تھوڑی ہیں۔‘‘(تفسیر نعیمی،ج1،ص332،نعیمی کتب خانہ،گجرات)

   در مختار میں ہے: ”و لا تصح الاجارة ۔۔۔لاجل الطاعات مثل الاذان و الحج والامامة و تعلیم القرآن و الفقہ و یفتی الیوم بصحتھا لتعلیم القرآن و الفقہ و الامامة و الاذان“ ترجمہ:طاعات پر اجارہ جائز نہیں ہے، جیسے اذان، حج، امامت ، قرآن اور فقہ کی تعلیم پر اجارہ  اور فی زمانہ  قرآن پاک اور فقہ کی تعلیم، امامت اور اذان کے لیے اجارے کے صحیح ہونے پر فتوی ہے۔(درمختارمع ردالمحتار، ج9، ص93تا94 ،مطبوعہ  پشاور)

   اس کے تحت علامہ ابن عابدین شامی علیہ رحمة اللہ القوی فرماتے ہیں:” قال فی الھدایة: و بعض مشائخنا رحمھم اللہ تعالیٰ استحسنوا الاستئجار علی تعلیم القرآن الیوم لظھور التوانی فی الامور الدینیة، ففی الامتناع تضییع حفظ القرآن و علیہ الفتوی اھ“ ہدایہ میں فرمایا ہے کہ ہمارے بعض مشائخ رحمہم اللہ تعالیٰ نے اب قرآن کی تعلیم پر اجارہ کو مستحسن قرار دیا ہے ، کیونکہ دینی معاملات کے اندر سستی ظاہر ہو رہی ہے، اس اجارہ کو منع کرنے میں قرآن پاک کے حفظ کو ضائع کرنا ہے، اسی قول پر فتوی ہے۔(رد المحتار علی الدرالمختار، ج9، ص94 ،مطبوعہ  پشاور)

   امام اہلسنت  مجدد دین و ملت  الشاہ امام احمد رضا خان  علیہ الرحمۃ  فرماتے ہیں:” اصل یہ ہے کہ طاعت و عبادات پر اجرت لینا دینا (سوائے تعلیم قرآن عظیم و علوم دین و اذان و امامت و غیرہا معدودے چند اشیاءکہ جن پر اجارہ کرنا متاخرین نے بنا چاری و مجبوری بنظر حال زمانہ جائز رکھا)مطلقا حرام ہے، اور تلاوت قرآن عظیم بغرض ایصال ثواب و ذکر شریف میلاد پاک حضور سید عالم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم ضرور منجملہ عبادات و طاعت ہیں،  تو ان پر اجارہ بھی ضرور حرام و محذور”کماحققہ السید المحقق محمد بن عابدین الشامی فی رد المحتار علی الدرالمختار۔(فتاوی رضویہ، ج19، ص 486،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   امام اہلسنت علیہ الرحمۃ  ایک مقام پر اس اجرت کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:”جب کہ ان میں معہود و معروف یہی لینا دینا ہے ،تو یہ اجرت پر پڑھنا پڑھوانا ہوا ۔’’فان المعروف عرفاً کالمشروط لفظاً‘‘اور تلاوت قرآن و ذکر الٰہی پر اجرت لینا دینا دونوں حرام ہے، لینے والے دینے والے دونوں گنہگار ہوتے ہیں”کما حققہ فی رد المحتار و شفاءالعلیل و غیرھا“ اور جب یہ فعل حرام کے مرتکب ہیں، تو ثواب کس چیز کا اموات کو بھیجے گا، گناہ پر ثواب کی امید اور زیادہ سخت و اشد ہے۔” کما فی الھندیة و البزازیة و غیرھما و قد شدد العلماءفی ھٰذا ابلغ تشدید“ہاں اگر لوگ چاہیں کہ ایصال ثواب بھی ہو، تو اس کی صورت یہ ہے کہ پڑھنے والوں کو گھنٹے دو گھنٹے کے لیے نوکر رکھ لیں اور تنخواہ اتنی دیر کی ہر شخص کی معین کر دیں، مثلا: پڑھوانے والا کہے میں نے  تجھے آج فلاں وقت سے فلاں وقت تک کے لیے اس قدر اجرت پر نوکر رکھا جو کام چاہوں گا، لوں گا۔ وہ کہے میں نے قبول کیا، اب اتنی دیر کے واسطے اس کا اجیر ہو گیا ، جو کام چاہے لے سکتا ہے ، اس کے بعد اس سے کہے : فلاں میت کے لیے اتنا قرآن عظیم یا اس قدر کلمہ طیبہ یا درود شریف پڑھ دو ۔ یہ صورت جواز کی ہے۔(فتاوی رضویہ، ج23، ص537،رضا فاؤنڈیشن ،لاھور)

   صدر الشریعہ بدر الطریقہ مولانا مفتی امجد علی اعظمی علیہ رحمة اللہ القوی فرماتے ہیں:” آج کل اکثررواج ہو گیا ہے کہ حافظ کو اجرت دے کر تراویح پڑھواتے ہیں، یہ ناجائز ہے، دینے والا اور لینے والا دونوں گنہگار ہیں، اجرت صرف یہی نہیں کہ پیشتر مقرر کر لیں کہ یہ لیں گے، یہ دیں گے، بلکہ اگر معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے، اگرچہ اس سے طے نہ ہوا ہو یہ بھی ناجائز ہے کہ’’ المعروف کالمشروط‘‘ ہاں اگر کہہ دے کہ کچھ نہیں دوں گا یا نہیں لوں گا، پھر پڑھے اور حافظ کی خدمت کریں ،تو اس میں حرج نہیں کہ’’ الصریح یفوق الدلالة۔“(بھار شریعت، ج 1،حصہ 4،ص692 ،مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   (2)کسی معاملے میں حرام سے بچنے کے لیے کوئی ایسی راہ اختیار کرنا کہ جس میں  شریعت کی یا کسی بندے کی  حق تلفی  بھی نہ ہو اور بندہ حلال طریقے سے اپنے مقصود کو حاصل  بھی کر لے، شرعی طور پر ایسا حیلہ اپنانا ، جائز ہے ۔ ہاں ! اگر اس کی وجہ سے  شریعت کی  یا کسی بندے کی حق تلفی ہو یا اس میں حرام کا شبہ ہو یا اس سے کسی باطل چیز کو ثابت کرنا مقصود ہو، تو ایسا حیلہ اپنانا ،ممنوع و مکروہ ، بلکہ بعض صورتوں میں ناجائز و حرام  ہوتاہے۔

   اور سوال میں جو یہ بات بیان کی گئی ہے کہ حیلہ فقط ان چیزوں میں ہو سکتا ہے کہ جن کی ممانعت  پر قرآن و حدیث میں حکم نہ آیا ہو، جبکہ اگر کوئی ایسی چیز ہے کہ جس کی ممانعت پر قرآن و حدیث میں حکم وارد ہو چکا، تو  اس کے لیے کسی قسم کا حیلہ اپنانا درست نہیں ہو گا۔ یہ بات درست نہیں ہے ، اس لیے کہ   پہلی بات تو یہ ہے کہ اس تقسیم کا کوئی ثبوت قرآن و حدیث یا اقوالِ علماء میں کہیں نہیں ہے اور دوسری بات یہ  ہے کہ متعدد احادیث مبارکہ میں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ ایک چیز کا عدمِ جوازقرآن و حدیث میں وارد ہوا، لیکن حدیث پاک میں نبی مکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس  مطلوبہ چیز کو حاصل کرنے کے لیے ایسا جائز طریقہ ارشاد فرما دیا کہ ناجائز کا ارتکاب بھی لازم نہ آئے اور مطلوب و مقصود بھی حاصل ہو جائے ۔

   علامہ ابن حجر عسقلانی علیہ الرحمۃ حیلے کا معنیٰ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:”الحیل جمع حیلۃ و ھی ما یتوصل بہ الی مقصود بطریق خفی “ترجمہ:حیل حیلہ کی جمع ہے اور جس کے ذریعے مخفی طریقے سے  مقصود  تک پہنچا جاتا ہے، اسے حیلہ کہتے ہیں۔(فتح الباری، ج12، ص326،دار المعرفہ، بیروت)

   حیلے کے جائز طریقے کے متعلق  المبسوط للسرخسی میں  ہے : ”ما یتخلص بہ الرجل من الحرام او یتوصل بہ الی الحلال من الحیل فھو حسن و انما یکرہ ذلک ان یحتال فی حق  لرجل حتی یبطلہ او فی باطل حتی یموھہ او فی حق  حتی یدخل فیہ شبھۃ فماکان علی ھذا السبیل فھو مکروہ و ما کان علی السبیل الذی قلنا اولا فلا باس بہ“ترجمہ:ایسا حیلہ کہ جس کے ذریعے کوئی   شخص حرام سے خلاصی حاصل کرتا ہے یا جس کے ذریعے حلال تک پہنچتا ہے ، وہ حیلہ اچھا ہے اور محض وہ حیلہ مکروہ ہوتا ہے  کہ جس حیلے کو کسی شخص کا حق باطل کرنے  کے لیے اختیار کیا جائے یا  کسی باطل کو حق کر کے دکھایا جائے یا کسی حق چیز میں  ایسا طریقہ اپنایا جائے کہ  جس میں شبہ داخل ہو، تو جو  حیلہ اس   طریقے پر ہو یعنی اس قسم کا حیلہ مکروہ ہے اور جو اس طریقے  پر ہو کہ جو ہم نےپہلے  کہا، تو اس میں حرج نہیں۔(المبسوط للسرخسی ، ج30، ص210، دار المعرفۃ، بیروت)

   متعدد احادیثِ مبارکہ میں  مختلف صحابہ کرام کے متعلق وارد ہوا ہے کہ  مثلاً :کوئی صحابی کوئی  چیز لے کر حاضر ہوئے، لیکن جب اس  کے حصول کا طریقہ نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم  نے سنا ، تو اس پر سود کا حکم ارشاد فرمایا اور پھر  اس کے متبادل اسی مقصد کے حصول کے لیے اس کا جائز طریقہ ارشاد فرمایا، جبکہ یہ بات بالکل واضح ہے کہ سود کا لین دین قرآن و حدیث کی روشنی میں جائز نہیں، لیکن اس کے متعلق جواز کا طریقہ ارشاد فرمانا اس چیز کی واضح دلیل ہے کہ  اگر کسی چیز کی ممانعت قرآن و حدیث میں مصرح(صراحتاً موجود) ہو، توبھی  اس  کو حاصل کرنے کے لیے جائز حیلہ اپنانے کی اجازت ہے۔حضرت  سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں:”جاء بلال بتمر برنی فقال لہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم : من این ھذا ؟ فقال بلال : تمر کان عندنا ردی فبعت منہ صاعین بصاع لمطعم النبی صلی اللہ علیہ  و سلم فقال رسول اللہ  عند ذلک  : اوہ عین الربا لا تفعل و لکن اذا اردت ان تشتری التمر فبعہ ببیع آخر ثم اشتر بہ“ترجمہ:حضرت بلال رضی اللہ عنہ برنی کھجوریں لے کر آئے ، رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے انہیں فرمایا: یہ کہاں سے لائے ہو؟تو حضرت بلال رضی اللہ عنہ نے عرض کی: ہمارے پاس ردی کھجوریں تھیں،تو میں نے نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے کھانے کے لیے  اس میں سے دو صاع  فروخت کر کے اس کے بدلے ایک صاع کھجوریں لی ہیں، تواس پر  رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تو خالص سود  ہے، ایسا نہ کرو ، لیکن جب تم کھجور  خریدنا چاہو ، تو اپنی کھجوریں فروخت کر دو ، پھر اس (سے حاصل ہونے والی رقم) سے دوسری کھجوریں خرید لو۔(صحیح المسلم، ج3، ص1215،دار احیاء التراث العربی، بیروت)

   محدثِ کبیر ملا علی قاری علیہ الرحمۃ فرماتے ہیں: ”ھذا الحدیث کالذی قبلہ  صریح فی جواز الحیلۃ فی الربا“ترجمہ:یہ حدیث اس سے گزشتہ حدیث مبارک کی طرح  سود کے معاملے میں حیلہ کرنے کے جواز میں صریح (واضح دلیل) ہے۔(مرقاۃ المفاتیح، ج5، ص1920، دار الفکر، لبنان)

   حدیث پاک میں موجود ہے کہ صدقہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم )اور آلِ محمد کے لیے حلال نہیں، لیکن جب اسی صدقے کی جہت و حیثیت بدل جائے، تو اس کا جواز بھی حدیث مبارک سے ثابت ہے، اسی کو تو حیلے کا نام دیا جاتا ہے کہ فی نفسہ اس کی جو حیثیت ہے، اسے تبدیل کر کے شریعت کے مطابق راہ اختیار کی جائے تاکہ حرام و ممنوع سے بچ سکیں۔

   نبی  پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ان ھذہ  الصدقات انما ھی اوساخ الناس و انھا لا تحل لمحمد و لا لآل محمد “ترجمہ:بے شک یہ صدقات لوگوں (کے مال) کا میل ہے اور یہ  محمد اور آلِ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) کے لیے حلال نہیں  ہے۔(صحیح المسلم، ص540، دار ابن حزم ، بیروت)

   حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں :”اتی النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم بلحم فقلت: ھذا ما تصدق بہ علی بریرۃ  فقال: ھو لھا صدقۃ و لنا ھدیۃ“ترجمہ:نبی پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بارگاہ میں گوشت پیش کیا گیا، تو میں نے کہا کہ یہ وہ گوشت ہے کہ جو حضرت بریرہ پر صدقہ کیا گیا تھا، تو حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ ان کے لیے صدقہ ہے اور ہمارے لیے ہدیہ (تحفہ) ہے۔(صحیح البخاری، ج2،ص128، دار طوق النجاہ، بیروت)

   اور حقیقت یہ ہے کہ ممانعت جہاں بھی ہوگی ،وہ قرآن و حدیث کی صراحت یا اس سے استدلال کرکے ہی ہوگی کہ قیاس کے ذریعے جو احکام ثابت کیے جاتے ہیں، تو ان میں اصل حکم قرآن و حدیث ہی کا ہوتا ہے۔ کیا قیاس سے حرمت ثابت ہو، تو یہ کہا جاتا ہے کہ اس چیز کو امام ابوحنیفہ علیہ الرحمۃ نے حرام کردیا ، یا یہاں بھی یہی ہوگا کہ شریعت نے اسے حرام کردیا؟ یقینا شریعت ہی نے حرام کیا اور اسی لیے  قیاس کے متعلق فقہائے کرام کا بہت واضح فرمان ہے کہ قیاس’’ مُثبِت‘‘ یعنی احکام کو خود ثابت کرنے والا نہیں ہوتا بلکہ ’’مُظہِر‘‘ یعنی احکام کو ظاہر کرنے والا ہوتا ہے کہ جو ظاہری طور پر قرآن و حدیث میں موجود نہیں ہوتے،  لیکن دلالۃً یا قرآن و حدیث کے تقاضے کے طور پر ہوتے ہیں۔ تو ممانعت بغیر قرآن و حدیث کے ثابت ہی نہیں ہوتی۔ اب اگر قرآن و حدیث کی ممانعت والی جگہ پر حیلہ نہیں ہوسکتا ہے، تو پھر حیلے کا باب ہی بند ہوجائے گا اور کہیں بھی حیلہ نہیں ہوسکتا۔

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم