Taraweeh Mein Hafiz Sahib Ka Madat Ka Khayal Na Rakhna Kaisa

 

تراویح میں حافظ صاحب کا مدات اور غنے کا خیال نہ رکھنا کیسا؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر:Nor-13353

تاریخ اجراء:18شوال المکرم1445 ھ/27اپریل2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ اگر کوئی حافظ صاحب تراویح میں اس انداز سے قرآن پڑھے  کہ ہر حرف کی پہچان بھی ہوتی ہو اور اُن کا پڑھنا سمجھ میں بھی آتا ہو، مگر  وہ حافظ صاحب مدات اور غنے وغیرہ کی بالکل بھی رعایت نہ کرتے ہوں، تو اس انداز سے قرآن پڑھنے میں شریعت ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   قرآن پاک کو تجوید کے ضروری قواعد کی رعایت کرتے ہوئے درست تلفظ سے پڑھنا ضروری ہے، بالخصوص مدِ متصل اور مدِ لازم کی رعایت کرنا تو بالاجماع واجب ہے، جان بوجھ کر اس میں کوتاہی کا ارتکاب کرنا ، ناجائز و گناہ ہے۔ یونہی دورانِ قراءت تشدید و تخفیف  کا خیال بھی رکھا جائے کہ  تشدید ترک کرنے کی صورت میں ایک حرف کو چھوڑنا لازم آئے گا جس سے قرآنی حروف میں تبدیلی واقع ہوگی، جبکہ قرآن پاک کے کسی ایک حرف میں بھی قصداً تبدیلی کرنا سخت ناجائز و حرام اور گناہ کا کام ہے، لیکن اس  سے نماز  فاسد نہیں ہوگی ۔   دورانِ قراءت حروف کی صفاتِ شدّت و جہر،غنہ یعنی  اظہار و اخفاء، تفخیم و ترقیق وغیرہ محسنات کا بھی حتی الامکان لحاظ رکھا جائے کہ اس کا ترک شرعاً مکروہ و ناپسندیدہ ہے۔

   لہذا   پوچھی گئی صورت میں لازم مدات کی رعایت نہ کرنے  کے سبب وہ حافظ صاحب گنہگار ہوں گے، اس گناہ سے توبہ کرنا اور آئندہ اس گناہ سے باز رہنا اُن پر لازم ہے۔ اگر یہ حافظ صاحب شرعی تقاضوں کے مطابق نماز پڑھا سکتے ہیں تو ٹھیک، ورنہ انہیں تراویح نہ پڑھانے دی جائے۔

   قرآن کو ترتیل کے ساتھ پڑھنے سے متعلق ارشادِ باری تعالیٰ  ہے:”وَ رَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًاؕ(۴)“ترجمہ کنزالایمان: ” اور قرآن خوب ٹھہر ٹھہر کر پڑھو۔“(القرآن الکریم: پارہ29،سورۃ المزمل،آیت 04)

   مذکورہ بالا آیتِ مبارکہ کے تحت تفسیرِ خزائن العرفان  میں ہے :”رعایتِ وقوف اور ادائے مخارج کے ساتھ اور حروف کو مخارج کے ساتھ تا بہ امکانِ صحیح ادا کرنا نماز میں فرض ہے۔ “(تفسیرِ خزائن العرفان، ص 1063، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   فتاوٰی رضویہ میں ہے:” بلاشبہ اتنی تجوید جس سے تصحیح حرف ہوا ور غلط خوانی سے بچے،  فرض عین ہے۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 343، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   فتاوٰی امجدیہ میں ہے:”قرآن مجید مطلقاً صحیح پڑھنا فرض ہے، نماز میں ہو، یا بیرونِ نماز۔“      (فتاوٰی امجدیہ، ج01،ص86، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   مدِ متصل اور مدِ لازم کی رعایت کرنا ضروری ہے جس کا تارک گنہگار ہوگا۔ جیسا کہ  فتاوٰی رضویہ میں ہے:” واجب واجماعی مدمتصل ہے منفصل کا ترک جائز و لہذا اس کا نام ہی مد جائز رکھا گیا اور جس حرف مدہ کے بعد سکون لازم ہو جیسے ضالین،الٓمّٓ  وہاں بھی مد بالاجماع واجب اور جس کے بعد سکون عارض ہو جیسے العالمین، الرحیم، العباد، یوقنون بحالت وقف یا قَالَ اَلَلّٰھُمَّ بحالت ادغام وہاں مدوقصر دونوں جائز، اس قدر ترتیل فرض و واجب ہے اور اس کا ترک گنہگار ،مگر فرائضِ نماز سے نہیں ترک مفسد صلاۃ ہو۔ (فتاوی رضویہ، ج 06، ص 278، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مدِ لازم کی مقدار میں قراء کا اختلاف ہے ۔ جیسا کہ ملا علی قاری علیہ الرحمہ "المنح الفکریہ" میں نقل فرماتے ہیں: و اختلفوا فی قدر مد غیر الفواتح، فمنھم من مد قدر الفین کالفواتح و ھو اختیار الناظم، و الیہ اشار بقولہ: "و بالطول یمد" کذا ذکرہ ابن المصنف مجملاً، و ینبغی ان یکون کلامہ محمولاً علی ان المراد ب "قدر الفین" زیادۃ علی المد الاصلی لیصح اطلاق الطول علیہ، فان اقل الطول ثلاث الفات، و التوسط قدر الفین لیبقی قدر الف للقصر۔ ثم قال: (و منھم من مد قدر الف و اختارہ الاھوازی والسخاوی)“ترجمہ: ” سورتوں کے شروع میں جو مد ہیں ان کے علاوہ مد لازم   کی مقدار میں قراء کا اختلاف ہے، بعض قراء کے نزدیک مدِ لازم کو دو الف کی مقدار کھینچا جائے گا جیسا کہ سورتوں کے شروع کے مدات میں ہوتا ہے اور اسی بات کو ماتن کے بیٹے نے اختیار فرمایا ہے، اور اسی بات کی طرف اپنے اس قول "و بالطول یمد" سے اشارہ فرمایا ہے، مصنف کے بیٹے نے اسے اجمالی طور پر بیان فرمایا ہے۔ مناسب یہ ہے کہ مصنف  کا کلام اس بات پر محمول ہو کہ یہاں دو الف کی مقدار سے مراد مدِ اصلی پر دو الف کی زیادتی ہے تاکہ مطلقاً لمبائی کا اس پر اطلاق درست ہو، کیونکہ لمبائی کی کم سے کم مقدار تین الف ہیں، اور متوسط مقدار دو الف ہیں تاکہ قصر کی حالت میں ایک الف کی مقدار باقی رہے۔ پھر مصنف نے فرمایا کہ بعض قراء کے نزدیک مد لازم کی مقدار ایک الف ہے اسی بات کو اھوازی اور سخاوی نے اختیار فرمایا ہے۔ “(المنح الفکریہ فی شرح المقدمۃ الجزریۃ، ص 225، مطبوعہ دمشق)

   اسی اختلاف کی طرف اشارہ کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ اتقان کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:”قد اجمع القراء علی مد نوعی المتصل و ذی الساکن اللازم وان اختلفو فی مقدارہ۔“یعنی تمام قراء مد کی دو اقسام مد متصل اور سکون والی مد لازم پر متفق ہیں اگرچہ کہ ان کی مقدار میں انہوں نے اختلاف کیاہے۔(فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 279، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   سیدی اعلی حضرت علیہ الرحمہ فتاوٰی رضویہ میں ایک مقام پر مد متصل کی مقدار ایک الف بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتے ہیں:” اگر حالت ایسی ہے کہ تجوید کے امور ضروریہ واجبات شرعیہ ادا نہیں ہوتے جن کا ترک موجب گناہ ہے جیسے مدمتصل بقدر ایک الف وغیرہ "فما فصلنا فی فتاوٰی لنا فی خصوص الترتیل " (جس کا ہم نے اپنے فتاوی میں ترتیل کے تحت تفصیلاً ذکر کیا ہے) جب بھی اُسے امام بنایا جائے گا نماز اس کے پیچھے بشدت مکروہ ہوگی"لاشتمالہاعلی امرمؤثم وکونہ فاسقا بتمادیہ علی ترک واجب متحتم" (کیونکہ وُہ ایسے امر پر مشتمل ہے جو گناہ ہے اور اسکا فاسق ہونا اس شک میں ڈالتا ہے کہیں وہ حتمی واجب کا ترک نہ کر بیٹھے) اور اگر ضروریات سب ادا ہولیتے ہیں صرف محسنات زائد ومثل اظہار اخفا وروم واشمام وتفخیم وترقیق وغیرہا میں فرق پڑتا ہے تو حرج نہیں،ہاں قواعد دان کی امامت اولٰی ہے۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 490، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مدات، تشدید و تخفیف کی غلطی سے مطلقاً نماز فاسد نہیں ہوتی۔ جیسا کہ سیدی اعلیٰ حضرت    علیہ الرحمہ ایک سوال  کے جواب میں ارشاد فرماتے ہیں: ”خطا فی الاعراب یعنی حرکت،سکون ، تشدید، تخفیف، قصر،مد کی غلطی میں علمائے متاخرین رحمہ اﷲ علیہم اجمعین کا فتو ی تو یہ ہے کہ علی الاطلاق اس سے نماز نہیں جاتی۔ (فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 248، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مزید ایک دوسرے مقام پر سیدی اعلیٰ حضرت  علیہ الرحمہ ارشاد فرماتے ہیں:”مدمتصل کی رعایت شرعاً بھی واجب اور ترک حرام مگر ان میں کسی کا ترک اصلاً مفسدِ نماز نہیں۔“(فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 504، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   تشدید و تخفیف ترک کرنے کی صورت میں قرآنی حروف کو بدلنا لازم آئے گا اور یہ قرآنِ پاک کی تحریف ہے جوکہ ناجائز و حرام ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے:”قرآن میں  قصداً بدلنا، اس کی جگہ اسے پڑھنا ، نماز میں ہو خواہ بیرونِ نماز حرام قطعی و گناہِ عظیم، افتراء علی اللہ و تحریفِ کتابِ کریم ہے۔‘‘(فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 305، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   حضرت علامہ محمدشریف الحق امجدی علیہ الرحمہ فتاوی امجدیہ کے حاشیہ میں فر ماتے ہیں:”مسئلہ کی صورت یہ ہے کہ ایک شخص صحیح ادا کرنے پر قدرت رکھتا ہے پھر بھی صحیح ادا نہیں کرتا تو وہ ضرور بالقصد قرآن مجید کو غلط پڑھتا ہے، اور قرآن مجید غلط پڑھنا قصداً اسے بدلنا ہے، مگر چونکہ اس کی نیت تحریفِ قرآن کی نہیں بلکہ وہ سستی اور لاپرواہی سے ایسا کرتا ہے، اس لیے کافر تو نہ ہوگا، البتہ شدید گنہگار ضرور ہوگا۔“ (فتاوٰی امجدیہ، ج01،ص88، مکتبہ رضویہ، کراچی)

   غنہ یعنی اظہارو اخفاء وغیرہا محسنات کا لحاظ نہ رکھنا شرعاً مکروہ و ناپسندیدہ ہے۔ جیسا کہ فتاوٰی رضویہ میں ہے: ” الفاظ بہ تفخیم ادا ہوں ، حروف کو اُن کی صفات شدّت و جہر و امثالہا کے حقوق پورے دئیے جائیں،  اظہار و اخفا و تفخیم و ترقیق وغیرہا محسنات کا لحاظ رکھا جائے ، یہ مسنون ہے اور اسکا ترک مکروہ و ناپسند اور اسکا اہتمام فرائض و واجبات میں تراویح اور تراویح میں نفل مطلق سے زیادہ ۔(فتاوٰی رضویہ، ج 06، ص 276، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم