Taraweeh Ki 4 Rakat Reh Jayen To Kya Qaza Kar Sakte Hain ?

تراویح کی چار رکعتیں رہ جائیں، تو قضا کیا جا سکتا ہے؟

مجیب:ابو محمد مفتی علی اصغر عطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-13304

تاریخ اجراء: 07رمضان المبارک1445 ھ/18مارچ 2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیافرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کےبارےمیں  کہ زید نے سحری کا وقت ختم ہونے سے آدھا گھنٹہ پہلے نمازِ تراویح شروع کی، ابھی چار رکعت تراویح باقی تھیں کہ وقت ختم ہوگیا۔ آپ سے معلوم یہ کرنا ہے کہ کیا زید اُن چار رکعتوں کو وقت ختم ہونے کے بعد بھی ادا کرسکتا ہے؟ شریعت اس بارے میں ہماری کیا رہنمائی کرتی ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں اُن چار رکعت تراویح کی قضا کرنا زید کے ذمے لازم نہیں، کیونکہ نمازِ تراویح اگر فوت ہوجائے تو اصلاً اُس کی قضا نہیں۔ البتہ اگر زید تراویح کی نیت سے وہ چار رکعت ادا کرلیتا ہے، تب بھی اُس کی یہ تراویح ادا نہیں ہوگی بلکہ جداگانہ نفل و مستحب ادا ہوں گے۔

   البتہ یہاں یہ ضرور یاد رہے کہ فجر کے  پورے وقت میں سوائے سنتِ فجر کے کوئی نفل نماز پڑھنا جائز نہیں، لہذا یہ نفل اگر پڑھنے بھی ہوں تو کسی ایسے وقت میں پڑھے جائیں جب نفل نماز پڑھنا منع نہ ہو۔

   تراویح کی اصلاً قضا نہیں۔ جیسا کہ تنویر الابصار مع الدر المختار میں ہے:”(ولا تقضى إذا فاتت أصلا) ولا وحده في الأصح (فإن قضاها كانت نفلا مستحبا وليس بتراویح) كسنة مغرب وعشاء۔“یعنی نمازِ تراویح جب فوت ہوجائے تو اس کی اصلاً قضاء نہیں، اصح قول کے مطابق تنہا بھی اس کی قضاء لازم نہیں۔ پس اگر کسی نے تراویح کی قضاء کرلی تو یہ نمازِ تراویح نہیں ہوگی بلکہ نفل مستحب ہوں گے جیسے مغرب و عشا کی سنتوں کو قضا کرنے کا حکم ہے ۔

   مذکورہ بالا عبارت کے تحت رد المحتار میں ہے:”(قوله ولا وحده) بيان لقوله أصلا: أي لا بجماعة ولا وحده ط (قوله في الأصح) وقيل يقضيها وحده ما لم يدخل وقت تراويح أخرى، وقيل ما لم يمض الشهر قاسم۔“ترجمہ: ”(قوله ولا وحده) شارح کا یہ قول "اصلاً"کا بیان ہے کہ نمازِ تراویح کی نہ تو جماعت کے ساتھ قضاہے اور نہ ہی تنہا قضا ہے، علامہ طحطاوی علیہ الرحمہ نے اسے ذکر فرمایا ہے۔ (قوله في الأصح) یہاں شارح نے اصح کی قید اس لیے لگائی کہ ایک قول یہ بھی ملتا ہے کہ بندہ تنہا نمازِ تراویح کی قضاکرے جب تک کہ دوسری تراویح کا وقت داخل نہ ہوجائے، اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ جب تک مہینہ نہ گزرجائے، اس وقت تک نمازِ تراویح کی قضا کی جاسکتی ہے، علامہ قاسم علیہ الرحمہ نے اسے بیان فرمایا ہے ۔“(رد المحتار مع الدر المختار، کتاب الصلاۃ، ج 02، ص 598 ، مطبوعہ کوئٹہ)

   درر الحکام شرح غرر الاحکام میں ہے:”(وإن فاتت لا تقضى أصلا) أي لا بالجماعة ولا منفردا؛ لأن القضاء من خواص الفرض۔“ یعنی نمازِ تراویح جب فوت ہوجائے تو اس کی اصلاً قضاء نہیں، نہ ہی جماعت کے ساتھ اور نہ ہی انفرادی طور پر، کیونکہ قضاء فرض کے خواص میں ہے ۔(درر الحكام شرح غرر الأحكام، کتاب الصلاۃ، ج 01، ص 119، دار إحياء الكتب العربية)

   بہار شریعت میں ہے:” اس کا وقت فرض عشا کے بعد سے طلوع فجر تک ہے۔ ۔۔۔۔ اگر فوت ہوجائیں تو ان کی قضا نہیں اور اگر قضا تنہا پڑھ لی تو تراویح نہیں بلکہ نفل مستحب ہیں، جیسے مغرب و عشا کی سنتیں۔“(بہارِشریعت، ج 01، ص 689، مکتبۃ  المدینہ، کراچی، ملتقطاً)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم