Tanki Mein Mara Howa Kawwa Mile To Pehle Ki Namazon Ka Hukum?

ٹینکی میں مرا ہوا کوا ملے ، تو پہلے کی نمازوں کا حکم؟

مجیب:مفتی علی اصغرصاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:Gul 1479

تاریخ اجراء:22 محرم الحرام1440ھ/03اکتوبر2018ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارےمیں کہ ایک دن عصر کی نماز کے بعد نمازیوں نے امام صاحب سے گزارش کی کہ ہمیں وضوکرتے ہوئے پانی سے بدبو محسوس ہوتی ہے، لہٰذاپانی کی ٹینکی چیک کی جائے۔ جب لوگوں نے ٹینکی دیکھی ، تو اس میں ایک کوا مرا ہوا پایا گیا، جس کے بال اور پر بکھر چکے تھے اور یہ کوا ٹینکی میں کب گرا، کسی کو بھی معلوم نہیں ہے ، تو اب وہاں کے نمازیوں نے اس پانی سے جو نماز یں ادا کی ہیں، ان کا کیا حکم ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   پوچھی گئی صورت میں جس وقت ٹینکی کے اندر مرا ہوا کوا دیکھا گیا، اس وقت سے اس ٹینکی کا پانی ناپاک قرار دیا جائے گا اور اس سے پہلے جو نمازیں ادا کی گئیں ، وہ ادا ہو گئیں ہیں، البتہ تین دن رات کی نمازوں کا اعادہ کرنا بہتر ہے۔

   اگر کنوئیں میں کوئی نجاست گر گئی، لیکن اس کے گرنے کا وقت معلوم نہ ہو ، تو اس کا حکم بیان کرتے ہوئے درمختار میں ہے:” وقالا: من وقت العلم فلا یلزمھم شئی قبلہ وقیل بہ یفتی“ یعنی صاحبین فرماتے ہیں  کہ اس صورت میں جس وقت کنویں میں نجاست گرنے کا علم ہوگا، اسی وقت سے کنویں کو ناپاک مانا جائے گا اور اس سے پہلے کے متعلق ان پر کچھ بھی لازم نہیں ہوگا اور یہی مفتی بہ قول ہے۔

(الدرالمختار متن ردالمحتار، جلد1، صفحہ420، کوئٹہ)

   کنویں میں ایک ناپاک چیز گر گئی، تو اس کے احکام بیان کرتے ہوئے سیدی اعلیٰ حضرت امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ارشاد فرماتے ہیں:”اور جو یہ امر متحقق نہ ہو سکے (یعنی  اس نجاست کے گرنے کا وقت معلوم نہ ہو سکے۔) تو کنواں اس وقت سے ناپاک ٹھہرے گا، جب سے وہ نال اس میں دیکھا گیا، اس سے پہلے کے وضو اور غسل اور نمازیں سب درست اور بدن اور برتن اور کپڑے سب پاک۔“

(فتاوی رضویہ، جلد3، صفحہ266، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

   کنویں میں کوئی جانور یا پرندہ گر کر مر جائے تو اس کے احکام بیان کرتے ہوئے بہار شریعت  میں ہے : ”اور اگر وقت معلوم نہیں ،تو جس وقت دیکھاگیا، اس وقت سے نجس قرار پائے گا،اگرچہ پھولا پھٹا ہو، اس سے قبل پانی نجس نہیں اور پہلے جو وضو یا غسل کیا یا کپڑے دھوئے، کچھ حرج نہیں، تیسیراً اسی پر عمل ہے۔“

(بھار شریعت، جلد1، حصہ2، صفحہ340، مکتبۃ المدینہ)

   فتاوی امجدیہ میں صدر الشریعہ بدرالطریقہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ سے ایک سوال ہوا”ایک چوہا کوئیں میں گر پڑا اور خبر اس وقت ہوئی ،جبکہ پانی بو دینے لگا، اور چوہے کے کچھ بال پانی میں مل گئے،ایسی حالت میں شریعت مطہرہ کا کیا حکم ہے، جبکہ کنوئیں کا پانی ٹوٹتا ہی نہ ہو اور کس وقت تک کی نماز کا اعادہ کیا جائے؟“ اس سوال کا جواب دیتے ہوئے صدرالشریعہ علیہ الرحمہ نے فرمایا:”جس وقت سے خبر ہوئی، اس وقت سے کنویں کے نجس ہونے کا حکم دیا جائے گا،تیسیراً اسی پر فتوی ہے۔درمختار میں ہے۔ ”وقالا من وقت العلم فلا یلزمھم شئی قبلہ وبہ یفتی۔ لہذا اس سے پہلے کی نمازوں کا اعادہ واجب نہیں۔“  

(فتاوی امجدیہ، جلد1، صفحہ21، مکتبہ رضویہ، کراچی)

    مزید ایک مقام پر امام اہل سنت رحمۃ اللہ تعالی ٰعلیہ سے سوال ہوا:”ایک کنواں ہے جس کا پانی کبھی نہیں ٹوٹتا، اس میں سے ایک چوہا پھولا ہوا بدبودار نکلا، اب اس کے پاک کرنے کی کیا صورت ہے اور ایسی صورت میں نماز لوٹائی جائے گی یا نہیں؟ اگر لوٹائی جائے گی تو کَےدن کی؟ مفتیٰ بہ قول تحریر فرمائیں۔“ اس کا جواب دیتے ہوئے امام اہلسنت رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ نے ارشاد فرمایا:”پانی توڑنے کی کوئی حاجت نہیں، جتنا پانی اس میں موجود ہے، اتنے ڈول نکال دیں، پاک ہو جائے گا۔ تین دن رات کی نماز کا اعادہ بہتر ہے۔“

(فتاوی رضویہ، جلد3، صفحہ294، رضا فاؤنڈیشن، لاھور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم