Tankhwa lene Wale Imam Ke Piche Namaz Parhna

تنخواہ دار امام کے پیچھے نماز پڑھنے کا حکم

مجیب:مولانا محمد انس رضا عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3130

تاریخ اجراء: 21ربیع الثانی1446ھ/25اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم تنخواہ پر نماز پڑھانے والے امام کے پیچھے نماز نہیں  پڑھتے، کیا ایسے امام کے پیچھے نماز نہیں پڑھنی چاہیے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نمازیں پڑھانے کی اجرت لینا جائز ہے کہ علمائے متاخرین نے شعائر دین وایمان کی حفاظت کے پیش نظرامامت   پراجرت لینےکے جواز کا فتوی دیا ہے۔لہٰذا جو امام، امامت پر اجرت لیتا ہے، اس کے پیچھے نماز پڑھنے میں کوئی حرج نہیں۔  

   علامہ علاؤ الدین حصکفی رحمۃ اللہ علیہ در مختارمیں فرماتے ہیں:”یفتی الیوم بصحتہا لتعلیم القرآن والفقہ والامامۃ والاذان “ ترجمہ :فی زمانہ تعلیم قرآن،فقہ ،امامت اور اذان کی اجرت جائز ہونے کافتوی ہے۔(در مختار مع رد المحتار،ج 6،ص 55،دار الفکر،بیروت)

   امام اہلسنت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں فرماتے ہیں :” (ترجمہ)قرآن عظیم کی تعلیم، دیگر دینی علوم اذان اور امامت پر اجرت لینا جائز ہے جیسا کہ متاخرین ائمہ نے موجودہ زمانے میں شعائردین وایمان کی حفاظت کے پیش نظرفتوی دیا ہے۔“(فتاوی رضویہ، ج 19،ص495، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   سیدی امام اہلسنت سے فتاوی رضویہ  میں سوال ہوا کہ کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ جوامام نماز پڑھانے پر نوکر ہے اس کی اقتداء کی جائے یا جماعت ترک کی جائے؟

   تواس کے جواب میں آپ نے فرمایا:" قطعاً اقتداء کی جائے اس عذر پر ترکِ جماعت ہرگز جائز نہیں، متقدمین کے نزدیک جو اُجرت لے کر امامت کرنے والے کے پیچھے نماز میں کراہت تھی اس بنا پر کہ اُن کے نزدیک امامت پر اُجرت لینا ناجائز تھا وہ بھی ایسی نہ تھی جس کے باعث ترکِ جماعت کا حکم دیا جائے ،اب کہ فتوٰی جواز اجرت پر ہے تو وہ کراہت بھی نہ رہی طحطاوی میں زیرِ قول درمختارتکرہ خلف من ام باجرۃ قھستانی(اس شخص کے پیچھے نماز مکروہ ہے جو اُجرت لے قہسانی۔ت) فرمایا: ھذا مبنی علی بطلان الاستئجار علی الطاعات وھی طریقۃ المتقدمین و المفتی بہ جوازہ خوف تعطیل الشعائرحلبی وابومسعود۲؎۔ یہ حکم اس پر مبنی ہے کہ عبادات پر اجرت لینا جائز نہیں (باطل ہے) اور یہ متقدمین کا طریقہ تھا اب مفتٰی بہ قول یہ رہے کہ اُجرت لینا جائز ہے ورنہ شعائر اسلامی کے معطل ہونے کا خوف ہےحلبی ومسعود (ت)

   اسی طرح ردالمحتار وغیرہا میں ہے۔"(فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ422،رضا فاؤنڈیشن،لاہور)

   ایک اور مقام پر فرماتے ہیں :”جواللہ عزوجل کے لئے امامت وتعلیم وتعلم کرتے ہیں ان سے خوش ہونا بہت بجا ہے، اور جو تنخواہ لیتے ہیں ان سے نفرت بیجا ہے کہ اب ان کاموں پر اجرت لینا رواہے۔“(فتاوی رضویہ،ج19، ص503، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم