Dunyavi Taleem Ki Waja Se Jamat Chorna Kaisa?‎

دنياوی تعليم کی وجہ سے جماعت چھوڑنا کيسا؟

مجیب:مولانا نورالمصطفی صاحب زید مجدہ

مصدق:مفتی ھاشم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:lar:8231

تاریخ اجراء:03جمادی الأولی1440ھ/10جنوری2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

     کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ اگر اسکول کے قریب ہی محلے کی مسجد ہو، لیکن اگر جماعت سے نماز پڑھنے جائیں گے ، تو انگلش کا لیکچر نکل جائے گا ، تو کیا اس مجبوری میں جماعت چھوڑ سکتے ہیں؟

سائل: طیب (جوہر ٹاؤن، لاہور)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

     ہر مسلمان صحیح و بالغ پر مسجد محلہ کی جماعت اُولیٰ میں شرکت شرعاً واجب اور بلاعذر شرعی اسے ترک کرنا ، ناجائز و گناہ ہے۔ تو جب آپ کے اسکول کے قریب محلے کی مسجد موجود ہے ، تو محض دنیاوی تعلیم کی مشغولیت اس مسجد کی جماعت اُولیٰ چھوڑنے کے لئے شرعی عذر نہیں ہے۔

     مصنف ابن ابی شیبہ (جلد 1 ، صفحہ303)، سنن دار قطنی (جلد2، صفحہ292)، المستدرک للحاکم (جلد 1، صفحہ373)، السنن الکبری للبیہقی (جلد3، صفحہ81)، معرفۃ السنن والآثار (جلد 4، صفحہ104)، کنز العمال (جلد4، صفحہ426)اور مصنف عبد الرزاق میں ارشاد نبوی صلی اللہ تعالی علیہ و آلہ وسلم ہے:( و اللفظ للآخر )” لا صلاۃ لجار المسجد الا فی المسجد.قال الثوری فی حدیثہ قیل لعلی ومن جار المسجد؟ قال من سمع النداءیعنی مسجد کے پڑوسی کی نماز نہیں ، مگر مسجد میں۔ امام ثوری رحمۃ اللہ علیہ کی حدیث میں ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے عرض کی گئی کہ مسجد کا پڑوسی کون ہے ؟ ارشا د فرمایا کہ جو اذا ن کی آواز سنے ۔ (مصنف عبد الرزاق ، رقم الحدیث1915، جلد1، صفحہ497 ، المکتبۃ الاسلامی ، بیروت)

     ایک حدیث پاک میں رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے اذان سن کر بلا عذر جماعت چھوڑنے کو ظلم اور نفاق سے تعبیر فرمایا۔ چنانچہ معجم کبیر للطبرانی اور مسند امام احمد میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:( والنظم لمسند احمد )الجفاء کل الجفاء والکفروالنفاق من سمع منادی اللہ ینادی بالصلاۃ یدعو إلی الفلاح ولا یجیبہ یعنی ظلم، پورا ظلم اور کفر اور نفاق یہ ہے کہ آدمی اللہ کے منادی کو نماز کی ندا کرتا اور فلاح کی طرف بلاتا سنے اور حاضر نہ ہو۔(مسند احمد بن حنبل ، جلد24، صفحہ390 ، مؤسسۃ الرسالۃ ، بیروت)

     صحیح بخاری ،صحیح مسلم اور سنن ابو داؤد وغیرہ میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ حضور علیہ الصلوۃ والسلام نے ارشاد فرمایا : (والنظم ھذالابی داؤد)’’ لقد هممت أن آمر فتيتي فيجمعوا حزما من حطب، ثم آتي قوما يصلون في بيوتهم ليست بهم علة فأحرقها عليهم ‘‘ترجمہ:تحقیق میں نے ارادہ کیا کہ میں اپنے جوانوں کو حکم دوں پس لکڑیوں کے گٹھے جمع کریں ، پھر میں ان لوگوں کے پاس آؤں ، جو بغیر عذر گھروں میں نماز پڑھتے ہیں ، تو میں ان کو آگ لگادوں ۔(سنن ابوداؤد ،کتاب الصلوۃ ،باب فی التشدید فی ترک الجماعۃ ،جلد1،صفحہ150،مکتبۃ العصریہ ،صیدا،بیروت)

     غنیۃ المستملی میں ہے :قال محمد فی الاصل اعلم ان الجماعۃ سنۃ مؤکدۃ لا یرخص الترک فیھا الا بعذر مرض او غیرہ واول ھذا الکلام یفید السنیۃ وآخرہ یفید الوجوب وھو الظاھر ففی الغایۃ قال عامۃ مشائخنا انھا واجبۃ وفی المفید انھا واجبۃ  وتسمیتھا سنۃ لوجوبھا بالسنۃ وفی البدائع تجب علی العقلاء البالغین الاحرار القادرین علی الجماعۃ من غیر حرج انتھی‘‘ترجمہ:امام محمد نے اصل میں فرمایا :جان لو کہ جماعت سنت مؤکدہ ہے ،اس کو چھوڑنے کی رخصت نہیں ہے مگر مرض وغیرہ کے عذر کی وجہ سے ۔اس کلام کا پہلا حصہ جماعت کے سنت ہونے کا فائدہ دیتا ہے اور آخری حصہ جماعت کے واجب ہونے کا فائدہ دیتا ہے اوریہی ظاہر ہے ، لہٰذا غایہ میں ہے کہ عامہ مشائخ نے فرمایا کہ جماعت واجب ہے اور مفید میں ہےکہ جماعت واجب ہے اور اس کو سنت کہنے کی وجہ یہ ہے کہ اس کا وجوب سنت سے ثابت ہے اور بدائع میں ہے کہ جماعت ایسے عاقل ،بالغ اورآزاد لوگوں پر واجب ہے ، جو بغیر مشقت جماعت پر قادر ہوں ۔(غنیۃ المستملی ،فصل فی الامامۃ ،صفحہ438،مطبوعہ کوئٹہ)

     امام اہل سنت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمن فرماتے ہیں :”پانچوں وقت کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ واجب ہے ۔ ایک وقت کابھی بلاعذر ترک گناہ ہے ۔“(فتاویٰ رضویہ،جلد7، صفحہ194، رضا فاؤنڈیشن، لاهور )

اسی فتاوی رضویہ میں فرمایا:’’اقول لسنانبیح تعمد ترک الجماعۃ الأولی اتکالا علی الاخری فمن سمع منادی ﷲ ینادی ولم یجب بلاعذر اثم وعزریعنی میں کہتاہوں : ہم جماعت اولیٰ کے عمداً ترک کو دوسری جماعت پربھروسا کی بناء پر مباح قرار نہیں دیتے اور جس شخص نے بھی اﷲتعالیٰ کی طرف سے بلاواسُنااور اس نے اسے قبول نہ کیا وہ گنہگار ہوگا اور وہ قابل تعزیر ہے۔(فتاوی رضویہ،جلد7،صفحہ162،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

وَاللہُ اَعْلَمُعَزَّوَجَلَّوَرَسُوْلُہ اَعْلَمصَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم