Takbeer e Ruku Buland Awaz Se Na Kahi To Imam Par Sajda Sahw Ka Hukum

تکبیرِ رکوع بلند آواز سے نہ کہنے سے امام پر سجدہ سہو لازم ہوگا یا نہیں؟

مجیب:ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2826

تاریخ اجراء:21ذوالحجۃالحرام1445 ھ/28جون2024  ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   جماعت سے نماز پڑھتے ہوئے امام صاحب نے پہلی رکعت  میں  رکوع کی تکبیر بلند آواز سے نہیں کہی،پیچھے کھڑے ایک مقتدی نے  بلند آواز  سے تکبیر کہی، جس سے مقتدی رکوع میں چلے گئے،پھر امام صاحب نے  بغیر سجدہ سہو کئے نماز مکمل کرلی،تو کیا وہ نماز درست ہوگئی؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   امام کا تکبیراتِ انتقالات  یعنی  رکوع و سجود  وغیرہ  کی تکبیریں    بلند آواز سے کہنا سنت ہے،واجب نہیں،اور سنت کے ترک سے نماز ہوجاتی ہے،سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوتا،لہذا پوچھی گئی صورت میں امام صاحب نے جو رکوع کی تکبیر بلند آواز سے نہ کہی ،تو چاہے ایسا جان بوجھ کر کیا ،یا بھول کر بہرصورت  اس سے نماز درست ہوگئی ،اور سجدہ سہو بھی لازم نہیں ہوا۔نیز   امام کی آواز نہ آنے پر  مقتدی کی تکبیر پر، دیگر مقتدیوں کا رکوع میں جانا بھی  درست تھا،کیونکہ اما م کی اقتدا چاہے خود امام کی آواز سن کر ہو  ،یا  کسی مکبر کی آواز کو سُن کرہو  ،بہرصورت یہ  اپنے  امام کی اتباع  و  اقتدا   ہی    کہلاتی ہے ، لہذا مقتدی کی تکبیر سُن کر رکوع کرنے سے بھی نماز میں کوئی فساد نہیں آیا ،وہ   نماز درست ہوگئی۔

   ا مام کے بلندآواز سے تکبیر کہنے کے متعلق مراقی الفلاح میں ہے:”ویسن  جھر  الامام بالتکبیر“ ترجمہ:امام کا جہر سے تکبیر کہنا سنت ہے۔(مراقی الفلاح،صفحہ143،مکتبۃ المدینہ،کراچی)

   صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ  بہار شریعت میں لکھتے ہیں:’’امام کو تکبیر تحریمہ اور تکبیرات انتقال سب میں جہر(بلند آواز کرنا) مسنون ہے‘‘۔(بھار شریعت،ج 1،حصہ3،ص 521،مکتبۃ المدینۃ ،کراچی)

   سنن و مستحبات کے ترک پر سجدہ سہو واجب نہیں ہوتا، جیسا کہ بہارِ شریعت  ہی میں ہے:”سنن و مستحبات مثلاً تعوذ، تسمیہ، ثنا، آمین، تکبیراتِ انتقالات، تسبیحات کے ترک سے بھی سجدۂ سہو نہیں، بلکہ نماز ہو گئی۔ (بھارشریعت ،ج 1، حصہ 4،ص 709، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

   اقتدا کے درست ہونے  میں اصل مقتدیوں کو اپنے   امام کے حال  کا معلوم ہونا  ہے، چاہے یہ  امام کی آواز سن کر ہو یا مکبر کی آواز سے ہو،چنانچہ تنویر الابصار مع درمختار میں ہے:’’(والحائل لا یمنع )الاقتداء(ان لم يشتبه  حال امامه) بسماع أو رؤیۃ‘‘ترجمہ:اگر امام کا حال مقتدیوں پر  سننے یا  دیکھنے  کے ذریعے سے  مشتبہ نہ ہوتا ہو،تو امام اور مقتدیوں کے درمیان کسی چیز کاحائل ہونا،اقتدا  کیلئے رکاوٹ نہیں  ہوگا۔

   در مختار کی عبارت ’’بسماع‘‘کی وضاحت کرتے ہوئے ، علامہ شامی رحمۃ اللہ علیہ رد المحتار میں ارشاد فرماتے ہیں:’’أی من الامام أو المکبر‘‘ترجمہ:یعنی امام ،یا مکبر کی آواز سننے سے(اگر  امام کے حال  کا علم ہوتا ہو،تو اقتدا درست ہوگی)۔(تنویر الابصار مع درمختار و رد المحتار،جلد2،باب الا مامۃ،صفحہ402،دار المعرفۃ،بیروت)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم