Tahajjud Ki Namaz Shuru Karne Ke Baad Chorna

نمازِ  تہجد شروع کرنے کے بعدچھوڑنا

مجیب:مولانا محمد نور المصطفیٰ عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-3139

تاریخ اجراء:27ربیع الاول1446ھ/02اکتوبر2024ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   اگر تہجد کی نماز پڑھنی شروع کی جائے تو  روٹین سے پڑھنی ضروری ہے یا چھوڑ بھی سکتے ہیں ؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   نماز  تہجد سنتِ مستحبہ اور  شرعاً بہت پسندیدہ  ہے۔ قرآن و احادیث میں  اس کی ترغیب دلائی گئی ہے۔ اسے چھوڑنے والا بڑی فضیلت سے محروم ہوتا ہے، اور جو شخص تہجد کا عادی ہو اسے بلاعذر تہجد چھوڑنا مکروہ و ناپسندیدہ ہے کہ حدیثِ پاک میں اس سے ممانعت کی گئی ہے۔ تاہم یہ واضح رہے کہ اگرتہجدکاعادی،تہجدچھوڑدے تو وہ گناہ گار نہیں ہوتا۔

   صحيح بخاری میں حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے مخاطب ہو کر ارشاد فرمایا ”يا عبد الله، لا تكن مثل فلان كان يقوم الليل، فترك قيام الليل“ ترجمہ: اے عبداللہ! تو فلاں کی طرح نہ ہونا کہ رات میں اٹھاکرتا تھا پھر چھوڑ دیا۔(صحیح البخاری، رقم الحدیث 1152، ج 2، ص 54، دار طوق النجاۃ)

   امام اہلسنت الشاہ امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ تعالی علیہ فرماتے ہیں:” عشاء کے فرض پڑھ کر آدمی سورہے پھر اس وقت سے صبح صادق کے قریب جس وقت آنکھ کھلے دورکعت نفل صبح طلوع ہونے سے پہلے پڑھ لے تہجد ہوگیا، اقل درجہ تہجدکایہ ہے اور سنت سے آٹھ رکعت مروی ہے اور مشائخ کرام سے بارہ اور حضرت سیدالطائفہ جنیدبغدادی رضی اﷲ تعالٰی عنہ دوہی رکعت پڑھتے اور ان میں قرآن عظیم ختم کرتے، غرض اس میں کمی بیشی کااختیارہے، اتنی اختیار کرے جو ہمیشہ نبھ سکیں اگرچہ دوہی رکعت ہو، کہ حدیث صحیح میں فرمایا: ”احب الاعمال الی ﷲ ادومھا وان قل“ اﷲ تعالی کو سب سے زیادہ پسند وہ عمل ہے کہ ہمیشہ ہو اگرچہ تھوڑاہو۔(فتاوی رضویہ، ج 7، ص 446،447، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   مزید ایک مقام پر فرماتے ہیں:”تہجد سنت مستحبہ ہے تمام مستحب نمازوں سے اعظم  واہم، قرآن واحادیث حضورپرنورسیدالمرسلین صلی اﷲ تعالٰی علیہ وسلم اس کی ترغیب سے مالامال، عامہ کتب مذہب میں اسے مندوبات ومستحبات سےگِنا اور سنت مؤکدہ سے جدا ذکرکیا، تو اس کا تارک اگرچہ فضل کبیر وخیرکثیر سے محروم ہے گنہگارنہیں۔(فتاوی رضویہ، ج 7، ص 400، رضا فاؤنڈیشن، لاہور)

   بہار شریعت  میں ہے”جو شخص تہجد کا عادی ہو بلا عذر اُسے چھوڑنا مکروہ ہے۔ کہ صحیح بخاری و مسلم کی حدیث میں ہے حضور اقدس صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے ارشاد فرمایا: ''اے عبداللہ! تو فلاں کی طرح نہ ہونا کہ رات میں اُٹھا کرتا تھا پھر چھوڑ دیا۔(بہار شریعت، ج 1، حصہ 4، ص 678، مکتبۃ المدینہ، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم