Sutra Ke Baghair Namazi Ke Aage Se Guzarne Ki Surat

سترہ کے بغیر نمازی کے آگے سے گزرنے کی صورت

مجیب: ابو حفص مولانا محمد عرفان عطاری مدنی

فتوی نمبر:WAT-2405

تاریخ اجراء: 15رجب المرجب1445 ھ/27جنوری2024   ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا  سترہ    کے بغیر، نمازی کے  آگے سے گزرنے کی کوئی صورت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   اگر نمازی مکان یا مسجدِ صغیر(یعنی چھوٹی مسجد اور آج کل کی  عام مساجد،کہ مسجدِ صغیر ہی کے حکم میں  ہیں)میں نماز پڑھ رہا ہوتو  ایسی صورت میں دیوارِقبلہ تک  بغیر سُترہ  کے  اُس نمازی کے آگے سے گزرنا  ہرگز جائز نہیں، اور بغیر سُترہ  کے گزرنے کی کوئی صورت نہیں۔البتہ  اگر نمازی صحراء  یا  مسجدِ  کبیر (یعنی  بڑی مسجد، جیسے مسجدِ حرام اور مسجدِ نبوی شریف کہ  فی زمانہ  اپنے عظیم رقبے کی وجہ سے مسجدِ کبیر ہیں)  میں نماز پڑھ رہا ہو تو موضعِ سجود کے آگے  سے  بغیر سُترہ  کے بھی  گزرنا  جائز ہوگا،جبکہ موضع سجود  تک بغیر سُترہ   کے   صحراء  یا   بڑی مساجد  میں بھی  گزرنا   جائز نہیں۔

   موضع سجود سے مراد یہ ہے کہ  قیام میں  نگاہوں کو سجدے کی جگہ پر جمایا جائے ،تو  نگاہیں جتنی دور تک کی جگہ کا احاطہ کریں، وہ سب جگہ  موضع سجود  ہے،اُس  کے اندر اندر تک بغیر سُترہ  کے نکلنا   مطلقًا   جائز نہیں،اس سے باہر صحراء  اور بڑی  مساجد میں نکلنے کی اجازت ہے ۔

   نمازی کے آگے سے بغیر سترے کے گزرنے سے متعلق،صحیح بخاری شریف کی  حدیث پاک میں ہے”قال رسول اللہ صلى اللہ عليه وسلم لويعلم الماربين يدی المصلی ماذاعليه لكان أن يقف اربعين خيرا له من أن يمربين يديه قال ابوالنضرلاأدری أقال أربعين يوماأوشهراأوسنة“ترجمہ:اگرنماز ی کےآگےسے گزرنےوالاجانتاکہ اس پرکیاگناہ ہے تووہ نمازی کےآگےسےگزرنےسےچالیس کی مقدارکھڑاہونے کو بہتر جانتا، ابونضر (راوی) فرماتےہیں : میں نہیں جانتاکہ آپ نےچالیس دن فرمایایاچالیس مہینےیاچالیس سال فرمایا۔(صحیح البخاری،کتاب الصلاۃ،باب اثم الماربین یدی المصلی،جلد1، صفحہ74، مطبوعہ کراچی)

   مکان یا چھوٹی مسجد اور صحراء  یا بڑی مسجد میں نمازی کے آگے سے گزرنے  کا حکم بیان کرتے ہوئے،سیدی اعلی حضرت امام احمدرضاخان علیہ رحمۃ الرحمٰن ارشادفرماتےہیں : ”نماز اگر مکان یاچھوٹی مسجدمیں پڑھتاہوتودیوارقبلہ تک نکلناجائزنہیں،جب تک بیچ میں آڑنہ ہو اور صحراء یا بڑی مسجد میں پڑھتا ہوتوصرف موضع سجود تک نکلنے کی اجازت نہیں اس سے باہرنکل سکتاہے۔۔۔مسجد کبیر صرف وہ ہے جس میں مثل صحرااتصال صفوف شرط ہے جیسے مسجد خوارزم کہ سولہ ہزارستون پرہے، باقی عام مساجد اگرچہ دس ہزار گزمکسر ہوں مسجد صغیر ہیں اور ان میں دیوار قبلہ تک بلاحائل مرورناجائز ۔(فتاوی رضویہ،جلد7،صفحہ254257-،رضافاؤنڈیشن،لاهور)

   موضع سجود  سے متعلق، ملفوظاتِ اعلیٰ حضرت میں ہے: ” خاشعین(یعنی ظاہری و باطنی آداب کی رعایت کرتے ہوئے مکمل توجہ رکھنے والوں ) کی سی نماز پڑھے کہ قیام میں نظر موضعِ سجود(یعنی سجدے کی جگہ) پر جمائی تو نظرکا قاعدہ ہے جہاں جمائی جائے اس سے آگے کچھ بڑھتی ہے۔ میرے تجربے میں یہ جگہ تین گزہے   یہاں تک نکلنا  مطلقًا جائز نہیں ، اِس سے باہر باہر صحرا اوربڑی مسجد میں نکل سکتا ہے ۔“( ملفوظات اعلیٰ حضرت، حصہ اول، صفحہ 133، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ، کراچی)

    شرعی کونسل آف بریلی شریف کے فیصلے میں ہے:” بعض فقہاء کرام کا قول مختار یہ ہے کہ 60 گز وسیع و عریض مسجد،مسجد کبیر ہے مگر اعلی حضرت کا مختار یہ ہے کہ جو مسجد نہایت وسیع و عریض جس میں مثل صحراء اتصال صفوف شرط ہے ،جیسے مسجد قدس اور مسجد خوارزم ہے ،ان کے علاوہ مسجدیں،مسجد صغیر ہیں۔۔۔باتفاق رائے یہ طے ہوا کہ اب مسجد نبوی اور مسجد حرام ،مسجد کبیر ہوگئی ہیں کہ اعلی حضرت نے جامع قدس کو مسجد کبیر مانا جس کا کل رقبہ 144000ایک لاکھ چوالیس ہزارمربع میٹر ہے اور مسجد نبوی اور مسجد حرام کا کل رقبہ جامع قدس کے رقبہ سے کئی گنا، زائد ہے کیونکہ مسجد حرام کا کل رقبہ 356000 تین لاکھ چھپن ہزار مربع میٹر ہے اور مسجد نبوی کا کل رقبہ 365000 تین لاکھ پینسٹھ ہزار مربع میٹر ہے تو یہ دونوں مسجدیں بدرجہ اولی ٰمسجد کبیر ہیں (واللہ تعالی اعلم بالصواب)۔ “(ملخصاً)(پندرھواں سالانہ فقھی سیمینار، فیصلہ : بابت مسجد نبوی اور مسجد حرام...الخ، شرعی کونسل آف انڈیا،بریلی شریف)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم