Suraj Grahan Ki Namaz Jamat Se Parhen Tu Qirat Sirri Hogi Ya Jehri ?

سورج گہن کی نماز جماعت سے ادا کریں تو قراءت جہری ہوگی یا سری؟

مجیب: مفتی ابومحمدعلی اصغرعطاری مدنی

فتوی نمبر: Nor-10799

تاریخ اجراء:       09 ذیقعدۃ الحرام  1441 ھ/01 جولائی  2020 ء

دارالافتاء اہلسنت

(دعوت اسلامی)

سوال

   کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ سورج گہن کی نماز جماعت سے ادا کریں تو قراءت جہری ہوگی یا سری؟ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جہری قراءت کرنی چاہیے کیونکہ بخاری شریف میں حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے :"جهر النبي صلى الله عليه وسلم في صلاة الخسوف بقراءته" ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز خسوف میں جہری قراءت فرمائی ۔(صحیح البخاری ، کتاب الصلوۃ ، باب الجھر بالقراءۃ الخ ، ج1، ص145، کراچی)

   آپ درست رہنمائی فرمادیں۔

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

   سورج گہن کی نماز میں قراءت سری یعنی آہستہ آواز میں ہو گی ، جہری یعنی بلند آواز میں قراءت نہیں ہو گی ، یہی احناف اور جمہور فقہائے کرام کا مؤقف ہے۔ اس  کے  چند دلائل درج ذیل ہیں:

   (1)متعدد احادیث مبارکہ میں مروی ہے کہ سورج گہن کی نماز میں آپ علیہ السلام کی آواز سنائی نہیں دیتی تھی ۔

   (2)حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اور دیگر صحابہ کرام  علیہم الرضوان سورج گہن کی نماز میں قراءت کی مقدا رکو اندازے سے بیان فرماتے ہیں ، یہ اس پر دلیل ہے کہ قراءت سری تھی کیونکہ اگر نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے جہری قراءت فرمائی ہوتی تو صحابہ کرام علیہم الرضوان اندازے سے نہ بتاتے ، جو قراءت فرمائی تھی ، اسی کو واضح طور پر بتا دیتے ۔

   (3)سورج گہن کی نماز دن میں ہوتی ہے اور دن کی نمازوں میں سری قراءت کرنے کا حکم ہے لہذا سورج گہن کی نماز میں بھی اسی اصول پر عمل کرتے ہوئے سری قراءت کی جائے گی۔

   سنن ابن ماجۃ ، سنن ابو داؤد شریف ، جامع ترمذی وغیرہ کثیر کتب حدیث میں ہے حضرت سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:واللفظ للترمذی"صلى بنا النبي صلى الله عليه وسلم في كسوف لا نسمع له صوتا قال وفي الباب عن عائشة قال أبو عيسى حديث سمرة حديث حسن صحيح"ترجمہ: نبی پاک صلی  اللہ علیہ وسلم نے ہمیں سورج گہن کی نماز پڑھائی ، ہم آپ کی آواز نہیں سنتے تھے۔ امام ترمذی فرماتے ہیں اس سے متعلق روایت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے اور حضرت سمرۃ کی حدیث حسن صحیح ہے۔(جامع ترمذی ، ابواب السفر ، باب کیف القراءۃ الخ ، ج1، ص126، کراچی)

   حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:"أن النبى صلى الله عليه وسلم صلى صلاة الكسوف فلم نسمع له صوتا" ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج گہن کی نماز پڑھائی تو ہم نے آپ علیہ السلام کی آواز نہیں سنی۔(السنن الکبری للبیہقی ، کتاب صلاۃ الخسوف ، باب من قال الخ ،ج3، ص466، دار الکتب العلمیۃ)

   قراءت کی مقدار اندازاًبتاتے ہوئے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں:"انخسفت الشمس على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقام قياما طويلا نحوا من قراءة سورة البقرة"ترجمہ: نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک زمانے میں سورج گہن ہوا تو آپ علیہ السلام نے نماز پڑھائی ، اس میں طویل قیام فرمایا جو تقریبا سورۃ البقرۃ پڑھنے کے برابر تھا۔(صحیح بخاری ، کتاب الکسوف ، باب صلاۃ الکسوف جماعۃ الخ ،ج1، ص143، کراچی)

   اندازے سے قراءت کی مقدار بتانا سری قراءت کی دلیل ہے چنانچہ علامہ قسطلانی علیہ الرحمہ ارشاد الساری میں ،علامہ احمد بن اسماعیل کورانی حنفی علیہ الرحمہ الکوثر الجاری میں ، علامہ عینی علیہ الرحمہ عمدۃ القاری میں فرماتے ہیں واللفظ للآخر:"ذكر معناه قوله نحوا من قراءة سورة البقرة وفي لفظ نحوا من قيام سورة البقرة وعند مسلم قدر سورة البقرة وهذا يدل على أن القراءة كانت سرا وكذا في بعض طرق حديث عائشة فحزرت قراءته فرأيت أنه قرأ سورة البقرة وقيل إن ابن عباس كان صغيرا فمقامه آخر الصفوف فلم يسمع القراءة فحزر المدة ورد على هذا بأن في بعض طرقه قمت إلى جانب النبي فما سمعت منه حرفا ذكره أبو عمر"ترجمہ:حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کے لفظ سورہ بقرہ جیسی سورت تلاوت فرمائی اور دوسری روایت میں سورۃ البقرۃ کی مثل کے لفظ ہیں جبکہ مسلم شریف میں سورۃ البقرۃ کی مقدار کے لفظ ہیں ، یہ الفاظ  دلالت کرتے ہیں کہ آپ علیہ السلام کی قراءت سری تھی اور اسی طرح کی روایت حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا سے بھی مروی ہے کہ میں نے آپ علیہ السلام کی قراءت کا اندازہ لگایا تو گمان کیا کہ سورۃ البقرۃ پڑھی ہے ، اس سے متعلق کہا گیا ہے کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما اس وقت بچے تھے اور آخری صف میں ہونے کی وجہ سےقراءت نہ سن سکے اس لیے قراءت کو اندازے سے بیان کیا مگراس کا رد دوسری روایت سے ہوتا ہے جس میں انہوں نے فرمایا ہے کہ میں نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سائیڈ پر کھڑا تھا تو میں نے کوئی حرف نہ سنا ، یہ بات علامہ ابو عمر مالکی علیہ الرحمہ  نے ذکر فرمائی ہے۔(عمدۃ القاری ، کتاب الکسوف ، باب صلاۃ الخ ، ج5، ص325، ملتان)

   سورج گہن کی نماز میں قراءت سری ہو گی ، چنانچہ علامہ حسین بن محمود مظھری حنفی علیہ الرحمہ (متوفی727ھ) المفاتیح فی شرح المصابیح میں ، علامہ محمد بن عز الدین المعروف بابن ملک حنفی علیہ الرحمہ (متوفی 854 ھ)شرح مصابیح میں ،شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ لمعات التنقیح میں ، علامہ علی قاری حنفی علیہ الرحمہ مرقاۃ میں فرماتے ہیں واللفظ للآخر:" وهذا يدل على أن الإمام لا يجهر بالقراءة في صلاة الكسوف، وبه قال أبو حنيفة وتبعه الشافعي وغيره۔۔۔۔ الاصل فی صلاۃ النھار الاخفاء" ترجمہ: یہ حدیث دلالت کرتی ہے کہ سورج گہن کی نماز میں امام جہری قراءت نہیں کرے گا اور یہ قول اما م اعظم ابو حنیفہ و امام شافعی علیہما الرحمہ وغیرہ کا ہے ۔۔۔ دن کی نمازوں میں اصل سری قراءت ہے۔(مرقاۃ المفاتیح،کتاب الصلوۃ ،باب صلوۃ الخسوف  ، ج3، ص327، ملتان)

   سوال میں مذکور بخاری شریف کی حدیث پاک میں چاند گہن کی نماز مراد ہے

   کیونکہ عموما خسوف کا اطلاق چاند گہن پر ہوتا ہے ، سورج گہن کو کسوف کہا جاتا ہے نیز اوپر موجود روایت میں واضح طور پر فرمایا ہے کہ ہم آپ علیہ السلام کی آواز نہیں سنتے تھے لہذا بخاری شریف کی سوال میں مذکور حدیث کو چاند گہن کی نماز پر محمول کرنا ہی متعین ہے۔

   چنانچہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی علیہ الرحمہ لمعات التنقیح میں ،امام سیوطی علیہ الرحمہ الدیباج شرح مسلم میں ، امام نووی علیہ الرحمہ شرح مسلم میں ،قاضی عیاض علیہ الرحمہ اکمال المعلم میں ، علامہ سراج الدین  ابن الملقن شافعی علیہ الرحمہ التوضیح شرح بخاری میں ، علامہ ابو العباس احمد قرطبی علیہ الرحمہ المفہم شرح مسلم میں ،  علامہ قسطلانی علیہ الرحمہ ارشاد الساری میں ، علامہ حسین بن محمود حنفی علیہ الرحمہ المفاتیح شرح مصابیح میں ، علامہ محمد المعروف ابن ملک علیہ الرحمہ اپنی شرح مصابیح میں ، علامہ ابو یحیی زکریا انصاری علیہ الرحمہ منحۃ الباری میں ،علامہ علی قاری علیہ الرحمہ مرقاۃ المفاتیح میں فرماتے ہیں واللفظ للآخر:"المراد خسوف القمر  لأنه يكون بالليل فيجهر بالقراءة فيها ،ذكره ابن الملك وهو المتبادر عند إطلاق الخسوف بل يتعين حمله عليه لما سيأتي أنه صلى في كسوف لا نسمع له صوتا"ترجمہ: مراد چاند گہن کی نماز ہے کیونکہ وہ رات میں ہوتی ہے لہذا اس میں جہری قراءت ہوگی ، یہ بات علامہ ابن ملک نے ذکر کی اور لفظ خسوف مطلق بولنے سے یہی متبادر ہے بلکہ اس حدیث کو چاند گہن کی نماز پر محمول کرنا متعین ہے کیونکہ عنقریب روایت آئے گی کہ سورج گہن کی نماز پڑھائی اور آواز سنائی نہ دی ۔(مرقاۃ المفاتیح، کتاب الصلوۃ ، باب صلاۃ الخسوف ، الفصل الاول ، ج3، ص318، ملتان)

   علامہ نووی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:"قوله "جهر في صلاة الخسوف" هذا عند أصحابنا والجمهور محمول على كسوف القمر لأن مذهبنا ومذهب مالك وأبي حنيفة والليث بن سعد وجمهور الفقهاء أنه يسر في كسوف الشمس ويجهر في خسوف القمر"ترجمہ: نما زخسوف میں جہری قراءت کی ، ہمارے اور جمہور علمائے کرام کے نزدیک یہ چاند گہن کی نماز پر محمول ہے کیونکہ ہمارا ، امام مالک ، امام ابو حنیفہ ، لیث بن سعد اور جمہور فقہائے کرام کا مذہب یہ ہے کہ سورج گہن کی نماز میں سری قراءت کرے گا ، چاند گہن کی نماز میں جہری قراءت کرے گا۔(المنہاج للنووی مع المسلم، کتاب الخسوف ، ج1، ص 296، کراچی)

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم