Suraj Grahan Ke Bare Mein Islami Nazariya Aur logon Ke Batil Khayalat?

سورج گرہن کے بارے میں اسلامی نظریہ اور لوگوں کے باطل خیالات

مجیب:مفتی قاسم صاحب مدظلہ العالی

فتوی نمبر:22947

تاریخ اجراء:27ربیع الاخر1441ھ25دسمبر2019ء

دَارُالاِفْتَاء اَہْلسُنَّت

(دعوت اسلامی)

سوال

    کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ(1) چاند اور سورج گرہن کے متعلق اسلام میں کیا حکم ہے اس وقت کیا پڑھنا چاہیے؟(2) سورج گرہن کے وقت حاملہ عورت کے بارےمیں  اسلام کیا کہتا ہے کہ اس کو کیا کرنے کا حکم ہے اور کس کس کام سے ممانعت ہے؟

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ

اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ

    (1)سورج اور چاند گرہن یہ اللہ تعالیٰ کی نشانیوں میں سے ایک نشانی ہے ،جو اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈرانے کے لئے ظاہر فرماتا ہے ۔اس کے بارے میں حکم ہے کہ جب کوئی یہ دیکھے تو نماز پڑھے ،صدقات و خیرات کرے ،تسبیح و تہلیل کرے اور اپنے گناہوں سے توبہ اور استغفار کرے ۔اور اس تاریکی کو دیکھ کر قبر و آخرت کی تاریکی کو یاد کر کے اس سے پناہ مانگے۔

چنانچہ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿وما نرسل بالا یات الا تخویفا ﴾ترجمہ: ہم ڈرانے کے لئے نشانیاں بھیجتے ہیں ۔اس آیت کے تحت علامہ شیخ محمود بن احمد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:’’الکسوف من آیات اللہ المخوفۃ لانھا مبدلۃ لنعمۃ النور الی الظلمۃ و تبدیل النعمۃ الی ضدھا تخویف ولا ن القلوب تفزع بذلک طبعا فکانت من آیا ت المخوفۃ واللہ تعالی انما یخوف عبادہ لیترکو المعاصی ،ویرجون الی طاعۃ اللہ التی فیھا فوزھم اقرب احوال العبد فی الرجوع الی ربہ ،انما ھو الصلاۃ ‘‘ترجمہ:سورج گرہن یہ اللہ تعالیٰ کی ڈرانے والی نشانیوں میں سے ہے کیونکہ سورج کی روشنی نعمت ہے اور اس نعمت کو اس کی ضد یعنی اندھیرے میں تبدیل کردینا یہ ڈرانے کے لئے ہے اور ویسے بھی انسان طبعی طور پر اس طرح کے کاموں سے ڈرتاہے اور اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے تاکہ وہ گناہ کر نا چھوڑ دیں اور اللہ تعالیٰ کی اطاعت کی طرف آجائیں جس میں ان کی کامیابی ہے اور بندے کو اپنے پروردگار کی بارگا ہ میں سب سے قریب کرنے والی چیز،وہ نماز ہی  ہے۔

(المحیط البرھانی ،جلد3 ،صفحہ 15مطبوعہ ، بیروت)

    لہذا جب بھی اس کو دیکھیں تو نماز پڑھنے کا حکم ہے ۔سورج گرہن کی نماز دورکعت سنت مؤکدہ ہے، باجماعت پڑھنا مستحب ہے، دو سے زیادہ رکعات بھی پڑھنے کی اجازت ہے ،افضل یہ ہے کہ سورج روشن ہونے تک نماز میں مشغول رہیں ،قراء ت طویل کریں اور رکوع و سجود کی تسبیحات بھی زیادہ پڑھیں، نماز سے فارغ ہوکر دعا و اذکار و تسبیحات و استغفار کریں ۔یا درہے کہ سورج گرہن کی نماز میں قراء ت بلند آواز سے نہ کریں ،اگر کہیں جماعت کا اہتمام نہ ہو،تواکیلے بھی پڑھ سکتے ہیں اور چاند گرہن کی  نماز مستحب ہے ،اسے تنہا پڑھیں ۔یہ اعمال مرد و عورت دونوں کے لئے ہیں ،لہذا عورت بھی اپنے گھر کے اندر رہ کران اعمال میں مشغول رہے۔

علامہ عبد اللہ بن محمود الموصلی الحنفی علیہ الرحمۃفرماتے ہیں کہ صحابہ کرام علیھم الرضوان کی ایک جماعت سے روایت ہے :’’ان النبی علیہ الصلوۃ والسلام صلی فی صلوۃ کسوف الشمس رکعتین کھیئۃصلاتنا ولم یجھر فیھما‘‘ترجمہ: حضور صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے سورج گرہن کی نماز ہماری نماز کی طرح دو رکعتیں پڑھیں اور ان میں بلند آواز سے قراء ت نہ کی۔

مزید فرماتے ہیں:’’صلاۃ کسوف الشمس رکعتان کھیئۃ النافلۃ و یصلی بھم امام الجمعۃ و لا یجھر ولا یخطب فان لم یکن صلی الناس فرادی رکعتین او اربعاً و ید عون بعدھاحتی تنجلی الشمس و فی الخسوف القمر یصلی کل وحدہ‘‘ ترجمہ:سورج گرہن کی نماز میں دو  رکعتیں ہوتی ہیں، جو نوافل کی طرح ادا کی جاتی ہیں ۔ اور امامِ جمعہ اس کو پڑھائے ،اس میں نہ بلندآواز سے قراء ت کر ے نہ اس میں خطبہ پڑھے اور اگر امام نہ ہو،تولوگ اپنی اپنی دو یاچار رکعات پڑھیں او ر اس کے بعد دعا مانگیں یہاں تک کہ سور ج صاف ہوجائے اور چاند گرہن کی نماز اکیلے اکیلے ادا کریں ۔

(الاختیار لتعلیل المختار ،جلد 1،صفحہ95،96 ،مطبوعہ کراچی)

    (2)حاملہ عورت کے لئے بھی یہی حکم ہے کہ وہ نماز پڑھے ،دعا کرے توبہ استغفا ر کرے وغیرہ اور اس وقت کام کرنے کی شرعا کوئی ممانعت نہیں ہے اور عوام میں جتنی باتیں مشہور ہیں کہ حاملہ عورت کوئی کپڑا وغیرہ نہ کاٹے،سونہیں سکتی ،چلتی پھرتی رہے ،یہ کام نہ کرے وغیرہ وغیرہ یہ سب بے اصل اور باطل ہیں اور ضعیف الاعتقادلوگوں کے توہمات ہیں ،جن کی شریعت میں کوئی حقیقت نہیں ۔نفع و نقصان کا مالک اللہ تعالیٰ ہے ،جو کچھ ہوگا وہ اسی کی طرف سے ہوگا، سورج یا چاند گرہن یہ موثر بالذات نہیں ہیں اور نہ ہی اس پر یقین رکھنا چاہیے۔

    حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دورِ اقدس میں جب سورج گرہن لگا تو اتفاق سے ان ہی دنوں میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے صاحبزادے حضرت ابراہیم رضی اللہ عنہ کاا نتقال ہوا تھا ،تو بعض لوگوں نے سورج گرہن کو اسی کا سبب قرار دیا ،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان باطل نظریات کی واضح تردید کرتے ہوئے فرمایا :’’ان القمر و الشمس لایخسفان لموت احد ولا لحیاتہ و لکنہما اٰ یتا ن من اٰیات اللہ فاذا راوھا فصلوا‘‘ ترجمہ:چاند اور سورج گرہن کسی کی موت یا زندگی سے نہیں لگتا، لیکن یہ اللہ تعالی کی نشانیوں میں سے یہ دو نشانیاں ہیں ،پس جب تم ان کو دیکھو تو نماز  پڑھو۔

(بخاری شریف، جلد1 ،صفحہ142، مطبوعہ کراچی)

    علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ تعالی علیہ اس حدیث پاک کی شرح میں فرماتے ہیں:’’ فی ھذا الحدیث ابطال ما کان اھل الجاھلیۃ یعتقدون من تاثیر الکواکب فی الارض و قال الخطابی کانوا فی الجاھلیۃ یعتقدون ان الکسوف یوجب حدوث تغیر فی الارض من موت و ضرر فاعلم النبی صلی اللہٰ علیہ وسلم انہ اعتقاد باطل و ان الشمس و القمر خلقان مسخران للہ تعالی لیس لھما سلطان فی غیر ھما و لا قدرۃ الدفع عن انفسھما ‘‘ترجمہ:اس حدیث پاک میں اس بات کو باطل قرار دیا گیا جو اہل جاہلیت اعتقاد رکھتے تھے کہ ستارے زمین میں موثر ہیں اور خطابی علیہ الرحمۃ فر ماتے ہیں کہ اہل جاہلیت یہ اعتقاد رکھتے تھے کہ چاند یا سورج گرہن زمین میں موت یا نقصان کرنے کے موجب ہیں، تو حضور نبی کریم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلمنے آگاہ فرما دیا کہ ایسا اعتقاد باطل ہے اور سورج اور چاند اللہ تعالی کی مخلوق اور تسخیر شدہ ہیں اور ان کے غیر میں ان کا کوئی اثر نہیں اور نہ اپنے سے کچھ دور کرنے کی قدرت۔

(عمدۃ القاری شرح صحیح بخاری ،جلد7،صفحہ95،مطبوعہ بیروت)

    لہذا مسلمانو ں کو ان باتوں پر اعتقا د نہیں رکھنا چاہیے، بس اللہ تعالیٰ پر ہی توکل رکھیں، وہی ہر شے کا مالک ہے ،نفع و نقصان اسی کے اختیا ر میں ہے۔ لیکن پھر بھی ہم کہتے ہیں کہ اس وقت کام کاج کرنا ،کپڑا وغیرہ کاٹنا ضروری بھی نہیں ہے لہذا اگر کوئی حاجت نہ ہو،تو عورت ان کاموں سے احتیاط کرے اور تسبیح ودعا و اذکار میں مشغول رہے ،کیونکہ بالفرض اس عورت کے بچے میں قدرتی طور پر ہی کوئی نقص ہوا، تولوگ ان باتوں پر اور پختہ اعتقاد رکھیں گے اور ساری عمر کے لئے اس کی جان کا روگ بنا دیں گے کہ اس عورت نے سورج گرہن یا چاند گرہن کے وقت یہ کام کیا تھا اس وجہ سے بچہ ایسا ہوا ہے۔

    اللہ تعالیٰ سب مسلمانوں کو احکام شریعت پر عمل کرنے اور بری خرافات سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے (آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم )

وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ  وَرَسُوْلُہ اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم