مجیب:مفتی محمد قاسم عطاری
فتوی نمبر:Fam-0214
تاریخ اجراء:16جُمادَی الْاُوْلٰی5144ھ/01 دسمبر2023ء
دارالافتاء اہلسنت
(دعوت اسلامی)
سوال
کیا فرماتے ہیں علمائے دین ومفتیان
شرع متین اس مسئلے کے بارے میں کہ
اگر کوئی شخص سنتِ مؤکدہ کی جگہ قضا نمازیں ادا کرے،اس کے لیے کیا حکم
ہے؟نیز اگر کوئی امام ایسا کرے ،تو اس کے پیچھے نمازکا کیا حکم ہوگا؟
بِسْمِ اللہِ
الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ
اَلْجَوَابُ بِعَوْنِ الْمَلِکِ الْوَھَّابِ اَللّٰھُمَّ ھِدَایَۃَ الْحَقِّ وَالصَّوَابِ
سنتِ
مؤکدہ کی جگہ قضا نمازیں ادا کرنا شرعاً درست نہیں۔جس
کے ذمے قضا نمازیں باقی ہوں،وہ شخص بھی
سُننِ مؤکدہ لازماً
پڑھے گا کہ اِن
کی شریعت میں بہت تاکید آئی ہے،یہاں تک کہ جو
سنتِ مؤكده کو بلاعذر
شرعی صرف
ایک آدھ بار ترک کرے، توایسا کرنا اِساءت
یعنی بُرا ہے اور ایسا شخص قابلِ ملامت
ہے، اور جو اُس کے ترک کی عادت بنالے ،تو ایسا شخص فاسق، گنہگار
اور مستحقِ عذاب ہے۔
اس
تفصیل کے مطابق اگر کوئی شخص
سنت مؤکدہ کو ترک کرکے، اُس
کی جگہ قضا نماز ادا کرے
، تو اگرایسا کرنا صرف ایک آدھ دفعہ ہی اس سے
ثابت ہو، تو ایسا شخص قابلِ ملامت وعتاب ہوگا،مگر فاسق و گنہگار نہیں ،ہاں اگر
یہ ترک اُس سے عادتاً ثابت ہو کہ کئی بار اُس نےسنت مؤکدہ کو ترک کرکےاُس کی جگہ قضا نمازیں ادا کی ہوں،تو
اب ایسا شخص ضرور فاسق و گنہگار ہوگا،اس پر لازم ہوگا کہ اپنے اِس گناہ سے توبہ کرے اور آئندہ سنتِ مُؤکدہ کو پابندی سے ادا کرے۔نیز ایسا شخص اگر امام ہو تونادراً سنت مؤکدہ کے ترک کی صورت
میں، تو وہ فاسق ہی نہیں ہوگا،لہذا اس کے پیچھے
نماز پڑھنا جائز
ہوگااور جہاں تک عادتاً ترک کے ثابت ہونے پر اُس کے پیچھے
نماز پڑھنے کی بات ہے ،تو ظاہر
ہے کہ اس صورت میں اگرچہ وہ اِس ترک سے فاسق
ہوجائے گا،لیکن چونکہ
اُس کا یہ فسق اِعلانیہ
نہیں کہ یہ ایک خفیہ معاملہ ہے،اس کے بتائے بغیر معلوم نہیں
ہوسکتا، لہٰذا فسق اعلانیہ کے نہ پائے جانے کی وجہ سےاُس کے پیچھے نماز پڑھنا جائزہوگا،مگر اس
صورت میں اس کے پیچھے اقتدا کرنا مکروہ تنزیہی
یعنی ناپسندیدہ ضرور ہوگا،البتہ اگر امام
نے خود سے ہی لوگوں کو بتادیا ہوکہ وہ سنت مؤکدہ کو ترک کرکے اس کی جگہ قضا نمازیں ادا کرتا ہے، جس کی وجہ سے امام
کا سنت مؤکدہ کا
تارک ہونا لوگوں
میں مشہور و معروف ہوچکا
ہو، تو اب لوگوں پر اُس کا
فسق ظاہر
و آشکار ہوجانے
کی وجہ
سے وہ
امام فاسق معلن ہوجائے گا اور فاسق
معلن ہوجانے کی وجہ سے
اس کے پیچھے نماز پڑھنامکروہ تحریمی ہوگا
یعنی اسے امام بنا کر اس کے پیچھے
نماز پڑھنا گناہ ہوگا،اگر پڑ ھ لی
ہو، تو اس نماز کو پھیرنا واجب ہوگا۔
سنت
مؤکدہ کو ترک کرکے اس
کی جگہ قضا نمازیں
ادا نہیں کرسکتے،جیسا کہ حاشیۃ
الطحطاوی علی مراقی
الفلاح میں ہے:”والاشتغال بقضاء الفوائت أولى وأهم من
النوافل الا السنة المعروفة وصلاة الضحى وصلاة التسبيح والصلاة التی وردت فی الأخبار فتلك بنية النفل وغيرها
بنية القضاء كذا فی المضمرات عن الظهيرية وفتاوى الحجة ومراده بالسنة
المعروفة المؤكدة وقوله وغيرها بنية القضاء مراده به أن ينوی
القضاء اذا أراد فعل غير ما ذكر فانه الأولى بل المتعين“ترجمہ: قضا نمازوں کی
ادائیگی میں مشغول ہونا
یہ نوافل پڑھنے
سے زیادہ اہم و اَولیٰ ہے ، سوائے
معروف سنتوں کے اور چاشت وتسبیح کی نماز کے اور اس نماز کے ،جس کے بارے میں
اخبار وارد ہوئی ہیں ۔ یہ نمازیں نفل کی نیت
سے پڑھے اور اس کے علاوہ قضا
کی نیت سے پڑھے۔
ایسا ہی مضمرات میں ظہیریہ
اور فتاوی الحجۃ
کے حوالے سے ہے ۔ معروف سنتوں سے مراد مؤکدہ سنتیں ہیں اور یہ
جو کہا کہ ” اس کے علاوہ قضا
کی نیت سے پڑھے۔
“ تواس کا مطلب یہ ہے کہ ان مذکوره نمازوں کے علاوہ کوئی نماز پڑھنا چاہے ، تو قضا کی نیت کر لے ، کیونکہ یہ
زیادہ اولیٰ
ہے ، بلکہ یہی متعین ہے۔ (حاشیۃ الطحطاوی
علی مراقی الفلاح، صفحہ447، دار الکتب العلمیہ، بیروت)
صدر
الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ بہار شریعت میں لکھتے
ہیں:”قضا نمازیں
نوافل سے اہم ہیں یعنی جس وقت نفل پڑھتا ہے ،اُنہیں چھوڑکراُن کے بدلے قضائیں پڑھے کہ برئ الذمہ ہو جائے، البتہ تراویح اوربارہ رکعتیں سنت مؤکدہ (
یعنی فجرکی 2سنتیں،ظہرکی6
سنتیں، مغرب کی 2سنتیں، عشاء کی
2سنتیں ) نہ چھوڑے۔‘‘(بھارِ شریعت، جلد1، حصّہ
4،صفحہ706،مکتبۃ المدینہ،کراچی)
سنت
مؤکدہ کے ترک کا حکم بیان کرتے ہوئے،سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان علیہ رحمۃ الرحمن فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’سنت
مؤکدہ کا ایک
آدھ بار ترک گناہ نہیں
،ہاں بُرا ہےاور عادت کے بعد گناہ
و نارَوا ہے۔‘‘ (فتاوی
رضویہ،جلد1،حصہ دوم،صفحہ911،رضا فاؤنڈیشن، لاھور)
سنت
مؤکدہ نمازوں کے ترک کا حکم بیان کرتے ہوئے، فتاوی
رضویہ میں ہی ایک مقام پر
ارشاد فرماتے ہیں:’’ شبانہ روز
میں بارہ رکعتیں
سنت مؤکدہ ہیں ،دو صبح سے پہلے،
اور چار ظہر سے پہلے اور دو بعد، اور دو مغرب و عشاء کے بعد، جو ان میں
سے کسی کو ایک آدھ بار ترک
کرے مستحق ملامت و عتاب
ہے۔ اور ان میں سے کسی کے ترک کا عادی گنہگار و فاسق و مستوجب
عذاب ہے ۔‘‘ ( فتاوی
رضویہ،جلد6،صفحہ509،رضافاؤنڈیشن
،لاھور)
صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ
اللہ تعالی علیہ بہار شریعت میں لکھتے
ہیں :”سنتیں بعض مؤکدہ
ہیں کہ شریعت میں اس پر تاکید آئی ، بلاعذر ایک بار
بھی ترک کرے ، تو
مستحقِ ملامت ہے اورترک کی
عادت کرے ، تو فاسق، مردود الشہادۃ،
مستحقِ نار ہے اور بعض ائمہ نے فرمایا
کہ ”وہ گمراہ ٹھہرایا
جائے گا اور گنہگار ہے اگرچہ
اس کا گناہ
واجب کے ترک سے کم
ہے۔“ تلویح میں ہے کہ اس کا ترک قریب حرام کے ہے، اس کا تارک مستحق ہے کہ معاذ اللہ! شفاعت
سے محروم ہو جائے کہ حضور اقدس صلی
اللہ تعالیٰ علیہ و سلم نے فرمایا: ” جو میری سنت کو ترک کرے گا، اسے میری شفاعت نہ ملے گی۔“ (بهار شریعت، جلد1،حصہ4،
صفحہ662، مکتبۃ المدینہ
، کراچی )
اعلانیہ اور خفیہ گناہ کرنے سے متعلق ،سیدی اعلی حضرت رحمۃ
اللہ علیہ فتاوی
رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’ گناہ کبیرہ خفیہ ہو یا
اعلانیہ فاسق کردینے
میں برابر ہے، مگر ایسا خفیہ جس پر بندے مطلع نہ ہوں ، بندے اس پر حکم نہیں کرسکتے کہ بے جانے حکم کیونکر
ممکن؟‘‘( فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ486،رضافاؤنڈیشن
،لاھور)
فاسق
معلن کے پیچھے نماز پڑھنے
سے متعلقحاشیۃ الطحطاوی
علی الدر المختار میں ہے:’’فی تقدیمہ تعظیمہ
وقد وجب علیھم
اھانتہ شرعا،ومفاد ھذا کراھۃ التحریم فی تقدیمہ ‘‘ ترجمہ:فاسق کو امام بنانے میں اس کی تعظیم
ہے اور ان پر شرعا اس کی توہین کرنا ضروری ہے،اور اس کا مفاد
یہ ہے کہ فاسق کو امام بنانا مکروہ تحریمی
ہے۔(حاشیۃ
الطحطاوی علی الدرالمختار،جلد2،باب
الامامۃ،صفحہ262،دار الکتب العلمیہ، بیروت)
فاسقِ معلن اور
فاسقِ غیر معلن کے پیچھے نماز پڑھنے سے متعلق ،سیدی اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ میں ارشاد فرماتے ہیں:’’فاسق
وہ کہ کسی گناہ کبیرہ
کا مرتکب ہوا اور وہی
فاجر ہے اور کبھی فاجر خاص زانی
کو کہتے ہیں ، فاسق کے پیچھے
نماز مکروہ ہے ،پھر اگر معلن نہ ہو یعنی وہ گناہ
چھُپ کر کرتا ہو معروف و مشہور نہ ہو، تو کراہت تنزیہی ہے یعنی خلاف اولیٰ ،اگر فاسق معلن ہے کہ علانیہ
کبیرہ کا ارتکاب یاصغیرہ پر اصرار کرتا
ہے، تو اُسے امام بنانا، گناہ ہے اور اس کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی
کہ پڑھنی
گناہ اور پڑھ لی ہو، تو پھیرنی
واجب۔‘‘ ( فتاوی
رضویہ،جلد6،صفحہ601،رضافاؤنڈیشن
،لاھور)
فتاوی رضویہ ہی میں
ایک سوال کے جواب میں ارشاد فرمایا:’’افیونی
اور بلاعذرشرعی تارکِ
صومِ رمضان فاسق اور اُن کے پیچھے نماز مکروہ تحریمی ہے کہ پڑھنا گناہ اور پھیرنا واجب جبکہ اُن کا فسق(لوگوں پر) ظاہر وآشکار ہو اور اگر مخفی ہو جب بھی کراہت
سے خالی نہیں۔‘‘ ( فتاوی رضویہ،جلد6،صفحہ606،رضافاؤنڈیشن
،لاھور)
وَاللہُ اَعْلَمُ عَزَّوَجَلَّ وَرَسُوْلُہ
اَعْلَم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ
وَسَلَّم
مسجد میں اسکول کی کلاس لگانا کیسا؟
ناپاکی کی حالت میں نماز ادا کرنے کا حکم؟
مسجدکی محراب میں اذان دیناکیساہے
ہوائی جہازمیں نماز کا کیا حکم ہے
مریض کے لیے لیٹ کرنماز پڑھنے کا طریقہ؟
نماز میں الٹا قرآن پڑھنے کا حکم
امام کے پیچھے تشہد مکمل کریں یا امام کی پیروی کریں؟
کیا بچے کے کان میں اذان بیٹھ کر دے سکتے ہیں؟